عشق کا فطرت سے ہی تھا سلسلہ چلتا ہوا
چاند کو دیکھا تو پانی میں بھنور پیدا ہوا
کیوں الٹ چلنے لگی ہے حافظے کی یہ گھڑی
یاد پھر آنے لگا ہے سوچ سے نکلا ہوا
اک صدا کے لوٹ جانے سے گلی سنسان ہے
کچھ دنوں سے چپ بہت ہے در وہ اک بجتا ہوا
کچھ دماغی مسئلے میرے تخیل میں رہے
حرف سادہ تھا مرا ابہام میں الجھا ہواا
راستے میں ٹوٹ کر جانے کہاں بکھرا تھا وہ
نیند کی وادی میں میرا خواب اک جاگا ہوا
اک دیا سورج سے لڑنے کے لئے تیار ہے
ایک دشمن کب سے میری تاک میں بیٹھا ہوا