یہ سچ ہے کوئی خوش فہمی نہیں ہے
محبت کی ڈگر اپنی نہیں ہے
بہت ہے غور کرنے کی ضرورت
کہ تم پر بے رخی جچتی نہیں ہے
نظر کے سامنے ویرانیاں ہیں
پسِ دیوار ویرانی نہیں ہے
مجھے عزت بنا کے اپنی تو نے
زباں کی لاج تو رکھی نہیں ہے
کہانی جھوٹ ہی اپنی سناؤ
خموشی اتنی بھی اچھی نہیں ہے
کسی پر کیسے انگلی میں اٹھاؤں ؟
مری جب خود سے ہی بنتی نہیں ہے
میں کب سے مرچکی اندر ہی اندر
کوئی احساس تک باقی نہیں ہے
ابھی آنسو مری آنکھوں سے ٹپکے
یہاں ندیا کوئی بہتی نہیں ہے
ہزاروں رنگ ہیں اس کے غزالہ
محبت اتنی بھی سادی نہیں ہے