زبیر قیصر
یہ دل ادھیڑ کے میں نے دوبارہ سی لیا ہے
کہ جیسے تیسے کسی آسرے پہ جی لیا ہے
۔۔۔
اندھیرے میری نگاہوں سے خوف کھاتے ہیں
لہو میں گھول کے میں نے چراغ پی لیا ہے
۔۔۔
ملا جو وقت تو پھر بات ہو گی تفصیلاََ
زمانے تُو نے مجھے کتنا سرسری لیا ہے
۔۔۔
مجھے کہانی سے تیری نہیں تھی دلچسپی
سو میں نے جان کے کردارثانوی لیا ہے
۔۔۔
اٹھا کے گٹھڑی ترے ہجر کی نکلنا تھا
نہ پوچھ گھونٹ جو چائے کا آخری لیا ہے
۔۔۔
ہمارے درد کو تُو ٹھیک سے نہیں سمجھا
ہمارے شعروں کو تُو نے بھی معنوی لیا ہے
۔۔۔
ہمیں خبر تھی کہ تم پر اثر نہیں ہو گا
سو ہم نے درد سہے ہیں ، لبوں کو سی لیا ہے