سب رویے بدلتے جاتے ہیں
لوگ زندہ ہیں مرتے جاتے ہیں
یہ مشینیں نہیں بلائیں ہیں
شہر سارے اُجڑتے جاتے ہیں
اپنے ہاتھوں میں دائرے پکڑے
لوگ خود میں اترتے جاتے ہیں
تیز اتنا گھما نہ دھرتی کو
ہاتھ سے دن نکلتے جاتے ہیں
راستے ہیں کہ ننگی بد روحیں
اب گھروں کو بھی ڈرتے جاتے ہیں
اپنے چہرے نہیں بدلتے ہم
آئنوں کو بدلتے جاتے ہیں
پھیلتےجارہے ہیں شہر ،اور ہم
اپنے اندر سمٹتے جاتے ہیں
ذندگی تم نے کس کو دیکھ لیا !
سر سے آنچل ڈھلکتے جاتے ہیں
سامنے آئنہ نما ہے کوئی
دیکھتے ہیں سنورتے جاتے ہیں
ہنس موتی خود اپنے اشکوں کے
چُگتے جاتے ہیں مرتے جاتے ہیں
جوگیا ! ہاتھ کی لکیروں میں
ؔخطِ ہجراں ابھرتے جاتے ہیں
ہم ہیں آوارگانِ شوق متین
ہم اُجڑ کر بھی بستے جاتے ہیں
اوصاف شیخ
مئی 16, 2021بہت اچھی غزل ہے ۔۔۔ وااااہ