گلے لہروں کے اٹھ کر یوں سفینہ پڑ رہا ہے
ترے دریا کا پانی مجھ کو پینا پڑ رہا ہے
میں کچھ دن کے لئے آئی تھی ملنے تم سے لیکن
مجھے لگ بھگ یہاں پر اک مہینہ پڑ رہا ہے
مری مزدوری پر اجرت بہت کم مل رہی ہے
لہو سے بھی بہت مہنگا پسینہ پڑ رہا ہے
میں ساہیوال سے پنڈی کی جانب جا رہی ہوں
مجھے جہلم سے کتنی دور دینہ پڑ رہا ہے
انگوٹھی تو بہت سستے میں میری بن گئی تھی
بہت مہنگا مگر اس میں نگینہ پڑ رہا ہے
انا میری تو سر اپنا اٹھا کر چل رہی ہے
مرے پاؤں میں میرا دل کمینہ پڑ رہا ہے
نجف سے ہو کے میں جس راستے سے آ رہی ہوں
مجھے نزدیک مکے سے مدینہ پڑ رہا ہے
کڑھائی کی گئی ہے سلک کے سوٹوں پہ جتنی
مجھے کپڑے میں کاغذ رکھ کے سینا پڑ رہا ھے