ہر ساتھ گزری رات کو ہلکا لیا گیا
سارے معاملات کو ہلکا لیا گیا
نا آشنا نہ تھے مرے حالات سے مگر
پھر بھی مری بسات کو ہلکا لیا گیا
کچھ سوچ کر ہی آیا تھا دہلیز پر تری
محفل میں جس کی بات کو ہلکا لیا گیا
کل تک بہت لگاؤ تھا ناچیز سے تمہیں
کیوں آج میری ذات کو ہلکا لیا گیا
سج دھج کے آج آئے ہو میت پہ تم مری
یعنی مری وفات کو ہلکا لیا گیا