غزل

غزل : نوید فدا ستی


نوید فدا ستی
آواز کے ٹوٹے ہوئے پیکر سے گرا تھا
وہ لفظ جو کٹ کر مرے اندر سے گرا تھا
سب پھول کھلے تھے ترے ہونٹوں کی چھووّن سے
ہر رنگ تری آنکھ کے منظر سے گرا تھا
ٹوٹا تھا ستارا بھی کوئی خواب میں آ کر
جگنو بھی کوئی رات کی چادر سے گرا تھا
ہر عکس مرا مجھ میں ہی ضم ہو گیا آ کر
میں آئنہ خانے میں برابر سے گرا تھا
کیوں خاک میں تحلیل ہوا کس کو خبر ہو
جھرنے کی طرح اشک تو پتھر سے گرا تھا
سب پات فدا ہونے کو تیار تھے اس پر
وہ رنگ جو شاخوں پہ گلِ تر سے گرا تھا

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں