نوید فدا ستی
آواز کے ٹوٹے ہوئے پیکر سے گرا تھا
وہ لفظ جو کٹ کر مرے اندر سے گرا تھا
سب پھول کھلے تھے ترے ہونٹوں کی چھووّن سے
ہر رنگ تری آنکھ کے منظر سے گرا تھا
ٹوٹا تھا ستارا بھی کوئی خواب میں آ کر
جگنو بھی کوئی رات کی چادر سے گرا تھا
ہر عکس مرا مجھ میں ہی ضم ہو گیا آ کر
میں آئنہ خانے میں برابر سے گرا تھا
کیوں خاک میں تحلیل ہوا کس کو خبر ہو
جھرنے کی طرح اشک تو پتھر سے گرا تھا
سب پات فدا ہونے کو تیار تھے اس پر
وہ رنگ جو شاخوں پہ گلِ تر سے گرا تھا