غزل

غزل : نوید صادق

قصر جلا  دیے گئے  ، تخت  گرا دیے گئے
اور جو مانتے نہ تھے، رہ سے ہٹا دیے گئے

عہد غلط نہ تھا مگر، عہد کے لوگ تھے غلط
اُلٹے قدم چلے سدا ، اُلٹے اُٹھا دیے گئے

ایک کی لَو حریف تھی، ایک کی ضَو حلیف تھی
ایک ہی شک میں سب کے سب، دیپ بجھا دیے گئے

تیرے لبوں پہ قفل تھا، میرے سخن پہ بندشیں
تیرے  مرے  شعور  کے رنگ  اُڑا  دیے  گئے

لوگ کہیں توکیا کہیں، لکھنا پڑے تو کیا لکھوں
رات  کی  رات میں کئی  پیڑ  گرا  دیے گئے

جانا پڑے تو جاوں کیا،رُکنا پڑے تو کیا رُکوں
کھیت اجاڑ کر مرے ، شہر بسا دیے گئے

younus khayyal

About Author

1 Comment

  1. younus khayyal

    فروری 28, 2021

    بہت عمدہ غزل ۔۔۔۔۔ واااااااااااااااہ
    تیرے لبوں پہ قفل تھا، میرے سخن پہ بندشیں
    تیرے  مرے  شعور  کے رنگ  اُڑا  دیے  گئے

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں