غزل

غزل : نوید صادق

تہی آغوش گلیوں میں پِھرا ہوں
اگر مَیں چار دن بھی جی سکا ہوں

مجھے منظور ہے تیرا نہ ہونا
ترے ہونے سے یک سر بھر گیا ہوں

اُدھر جاؤں، نہ جاؤں، کچھ دنوں سے
مَیں بس اک کشمکش میں مبتلا ہوں

خدا جانے، خدا سے چاہیے کیا؟
مَیں اکثر معبدوں میں گونجتا ہوں

مرے اعصاب پر طاری مرے دوست!
ترا کوئی نہیں ہے، جانتا ہوں

زمانے میں مری اوقات کیا ہے
بس اِک طاقِ تماشا میں دھرا ہوں

ہمیشہ کینوس میں قید رکھا
مصور سے شکایت کر رہا ہوں

چلو، یہ اعتکافِ ذات ٹوٹا
مَیں مسجد سے زمانے دیکھتا ہوں

مجھے سب یاد ہے، بھولا نہیں کچھ
کسی کھڑکی کا زنجیری رہا ہوں

شکستِ دل کوئی کم واقعہ ہے
مَیں، دن ہو رات ہو، بس ٹوٹتا ہوں

چراغوں نے مری مشکل نہ جانی
مَیں اوروں کے لیے جلتا رہا ہوں

کوئی تسکین کا پہلو تو نکلا
بہت مُڑ مُڑ کے اُس کو دیکھتا ہوں

کسی کے سامنے کچھ بھی نہیں مَیں
کسی کے واسطے کیا کچھ رہا ہوں

اندھیرے سے یہ کیسی نسبتیں ہیں
مَیں تاریکی میں اچھا دیکھتا ہوں

تو پھر یوں ہے کہ تم بھی سو ہی جاؤ
مَیں اپنے آپ سے الجھا ہوا ہوں

جدائی کا بھی کچھ مفہوم ہو گا
شب و روز آئنے سے پوچھتا ہوں

تمھیں معلوم ہے تو لوٹ آؤ
مَیں اپنے سامنے تنہا کھڑا ہوں

نوید! اِک تم تھے، میرے دوست! تم تھے
تمھارے بعد مَیں سب سے خفا ہوں

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں