نذیر اے قمر
آنکھوں میں عکسِ یار چھپا ہی نہ پائے ہم
تصویر سے نقاب اٹھا ہی نہ پائے ہم
شیشہ ہوا ہے سنگِ حقیقت سے چُور چُور
آنکھوں کو کوئی خواب دکھا ہی نہ پائے ہم
بھٹکے رہے ہیں لالہ و گُل کی تلاش میں
باغِ وقارِ ہستی سجا ہی نہ پائے ہم
اسلاف لکھ گئے تھے جو چہرے پہ وقت کی
"تحریر سے نگاہیں ہٹا ہی نہ پائے ہم”
اک سیلِ بے پناہ کی صورت رواں رہے
دریا کا راستہ مگر پا ہی نہ پائے ہم
آئے تھے جس کے واسطے جینے کو چار دن
اس زندگی کو اپنا بنا ہی نہ پائے ہم
کل تک تو اس کی آنکھ کے ڈوروں میں تھی شراب
پینے کو جام کوئی اٹھا ہی نہ پائے ہم