ممتاز اطہر
جلی حرفوں فصیلوں پر لکھا کچھ اور کہتا ہے
مگر اندر سے شہرِ بے صدا کچھ اور کہتا ہے
وہ منظر ہے کہ آنکھوں پر کسی صورت نہیں کُھلتا
ہَوا کچھ اور کہتی ہے دیا کچھ اور کہتا ہے
فضا شفّاف ہے اور پَر کھلے ہیں فاختائوں کے
مگر یہ خاک و خوں کا معرکہ کچھ اور کہتا ہے
یہاں لوگوں کے خدو خال اُجلے ہیں مگر پھر بھی
مجھے میری نظر کا آئینہ کچھ اور کہتا ہے
سفر کی سمت کا کوئی تعیّن ہو تو کیسے ہو
غبارِ کارواں کچھ ‘ راستہ کچھ اور کہتا ہے
گھتی چائوں کی خواہش تو بہت رکھتے برہنہ پا
مگر یہ جبر کا دشتِ بلا کچھ اور کہتا ہے
تغاوت ہی کچھ ایسا ہے یہاں لفظ و معانی میں
طلب کچھ اور مضمونِ دعا کچھ اور کہتا ہے
یہاں اطہرؔ کئی ان مٹ جہاں آباد ہیں لیکن
شجر پر ہے جو خالی گھونسلہ کچھ اور کہتا ہے