فرح خان
چبھتی ہوجو سینے میں محبت، نہیں کرتے
ہم دل پہ کوئی ایسی عنایت نہیں کرتے
یہ جنس ہمیں ملتی ہے اس وقت کہ جب ہم
محسوس محبت کی ضرورت نہیں کرتے
مقتل سے صدا دے، یا کوئی دل کے نگرسے
ہم وعدہ وفا کرتے ہیں غفلت نہیں کرتے
اس عہدِ عداوت میں بھی ہم امن کے داعی
بچوں کی امانت میں خیانت نہیں کرتے
ویسے تو طلب رہتی ہے منزل کی انہیں بھی
کچھ لوگ سفر کرنے کی زحمت نہیں کرتے
احساں نہیں لیتے کبھی ہم تازہ ہوا کا
دم گھٹنے سے مر جاتے ہیں منت نہیں کرتے
جو لکھا گیا ہے وہ ہمیں مل کے رہے گا
ہم رزق کی خاطر کبھی عجلت نہیں کرتے
حیرت ہے کہ ہر ظلم سہے جاتے ہیں لیکن
دھرتی کے خداؤں سے بغاوت نہیں کرتے
منزل کبھی رہتی ہے فرح ہم سے گریزاں
یا ہم کبھی منزل پہ عنایت نہیں کرتے
فرح خان