غزل

غزل : فرحت عباس شاہ

فرحت عباس شاہ
فرحت عباس شاہ
تم جب ہم کو    اتنا    سستہ بھول گئے
ہم بھی تمہیں پھر جستہ جستہ بھول گئے
کتنی     اچھی چائے تھی تیرے ہاتھوں کی
کتنا    تھا    وہ بسکٹ    خستہ بھول    گئے
جب تو    کزن کی باتیں سنا کر ہنستی تھی
میں بھی    مجبورا” تھا ہنستا ، بھول گئے ؟
ایسی    برسی    آنکھ    ہماری ساون میں
بستی    والے    ابر برستا    بھول گئے
مہک    رہا    ہے کمرہ خوشبو سے جیسے
آپ ہمارے گھر گلدستہ بھول    گئے
بچپن میں وہ ساتھ ہمارے پڑھتی تھی
اس کو    یاد رکھا    اور بستہ بھول گئے
کونسی شاخ سے ٹوٹ گرے تھے یاد نہیں
کونسے    پیڑ    سے تھے پیوستہ بھول گئے
کل شب راہ میں اک آوارہ جھونکے نے
آنکھ چبھو دی اور    ہم رستہ    بھول گئے
اک لڑکی تھی اور اک لڑکا تھا فرحتؔ
ہوکر    آپس میں    وابستہ    بھول گئے

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں