سب بھر چکے ہیں زخم نشاں اب نہیں رہا
آنکھوں میں حسرتوں کا جہاں اب نہیں رہا
سب دھیرے دھیرے جاچکے ہیں چھوڑکرمجھے
آباد پیار کا وہ مکاں اب نہیں رہا
یکلخت اس نے پھیر لیں آنکھیں نہ پوچھئے
شاید کہ پیار کا وہ سماں اب نہیں رہا
مجھ میں سمٹ کے رہ گئی ہیں میری وحشتیں
سوچوں کے درمیاں بھی دھواں اب نہیں رہا
خود کو جلا کے کردئیے روشن یہ راستے
مایوسیوں کا کونہ یہاں اب نہیں رہا
مغرور ہے وہ خود کو سمجھتا ہے فلسفی
ماشہ بھی اس میں خوف بیاں اب نہیں رہا
کھلنے لگے گلاب ہیں چاروں طرف مرے
میرے چمن میں دور خزاں اب نہیں رہا