میرے آنسو وہ پونچھتا ہی نہیں
دل کے در کو وہ کھولتا ہی نہیں
عشق نے دی ہے روز قربانی
یہ تو کٹنے سے چوکتا ہی نہیں
آگ سے میں نے دوستی کرلی
اور دریا کہ روکتا ہی نہیں
میرے ضدی کی ضد مجھے مارے
میں جو روٹھوں تو پوچھتا ہی نہیں
جب سے پتھر ہوا یہ دل غم سے
اپنے بارے میں سوجھتا ہی نہیں
دل پہ بارش ہوئی جو الفت کی
میرا نفرت سے واسطہ ہی نہیں
وصل کی رات ،داستاں دکھ کی
کیا سناؤں کہ حوصلہ ہی نہیں