کچھ ادھر باقی ہے کچھ خاص ادھر باقی ہے
کیا کہوں کیسے کہوں کیسا یہ ڈر باقی ہے
عزم ٹوٹے گا نہیں زیست رلاتی جا تو
مجھ میں جینے کا ابھی دیکھ ہنر باقی ہے
تیری جانب سے جفاؤں کی بھلا فکر ہو کیوں
مجھ میں موجود ابھی ذوقِ نظر باقی ہے
خامشی شور مچاتی ہے بہت ہی لیکن
گفتگو کا تری اطراف سحر باقی ہے
گردشِ دوراں ابهی مان لوں میں کیسے شکست
کیا تجهے علم نہی کاندهوں پہ سر باقی ہے
برف باری تو ہوئی خوب مگر دل میں ابهی
ایک حسرت کا دیا ہے یا شرر باقی ہے
بحرِ خواہش نے ڈبویا تو یہی راز کهلا
زندگی تیرے کنارے پہ بهنور باقی ہے
میں نے کہنے کو ہر اک بات بهلا دی لیکن
دل یہ کہتا ہے کوئی بارِ دگر باقی ہے
اک تو گہرے ہیں اداسی کے یہ بهیلے سائے
اس پہ سنسان سی آہٹ کا سفر باقی ہے