جو غم ہمارا ہے وہ غم تمہارا ہے کہ نہیں
بتا دو ہم کو خدارا خدارا ہے کہ نہیں
قفس کی قید کا قیدی بتائے گا کیسے ؟
بساط. عشق کا کوئی کنارا ہے کہ نہیں
سمندروں کے سفر پر ہو کتنی مدت سے
ادھر پلٹ کے بھی دیکھو کنارا ہے کہ نہیں
گلاب کہتے ہیں جس کو وہ زندگانی میں
محبتوں کا حسیں استعارہ ہے کہ نہیں
ذرا سا ضبط کے بادل کو تم برسنے دو
سمجھ میں آئے گا تم کو خسارا ہے کہ نہیں
پلٹ کے آئے گا میرا یقین تها یہ مگر
میں سوچتی ہوں کہ اس کو پکارا ہے کہ نہیں
چهپا رہی ہے زمانے سے آج کل جس کو
وہ بکهرا بکهرا سا قصہ ہمارا ہے کہ نہیں
جو رات ٹوٹ کے آیا تها میرے قدموں میں
کوئی بتادے مجهے وہ ستارا ہے کہ نہیں