اِدھر فسردہ ہوں میں اور اُدھر وہ روتا ہے
وہی ہوا ہے محبت میں جو کہ ہوتا ہے
میں اس لیے ترا احسان مند ہوں مرے دل
مرے کہے پہ تُو جذبوں کا بوجھ ڈھوتا ہے
بھنور میں لاتا ہے عُجلت پسند ہونا بھی
وگرنہ پانی فقط ناؤ کب ڈبوتا ہے
اب آ گئے ہیں محبت کے اس مُقام پہ ہم
کہ اُس کا اشک مری آنکھ کو بھگوتا ہے
ترے خلوص پہ لعنت ہے ایسے دوغلے شخص
کبھی عدو کی کبھی میری سمت ہوتا ہے
پُکارتیں ہیں تصور میں خالی باہیں تجھے
ترے بغیر حسن روز رو کے سوتا ہے