عطاالحسن
گُزشتہ شب تھی بڑی خود پہ دعوے دارہوا
ہوئی چراغ سے شرمندہ بار بار ہوا
یہ لڑکا عُمر سے یونہی بڑا نہیں لگتا
کبھی رہی نہیں اس گھر کی ساز گار ہوا
گُھٹن مکان کے دیوار و در نہ کھا جائے
سو غم گُزیدہ کواڑوں سے کچھ گُُزار ہوا
کبھی یہ شہر گُلابوں کا شہر ہوتا تھا
اور اب اُڑاتی ہے گلیوں میں صرف خار ہوا
ابھی یہ روگ حسن تیری جاں نہ چھوڑیں گے
اُڑائے گی ترا برسوں تلک غُبار ہوا