غزل

غزل : عبدالباسط صائم

عبدالباسط صائم
عبدالباسط صائم
جب بھی بچوں نے شرارت سے اچھالی پگڑی
خاک پر گر کے بزرگوں نے سنبھالی پگڑی
گھر میں جھگڑا تھا زمینوں کی وراثت کے لیے
ماں نے روتے ہوئے بیٹوں سے چھپالی پگڑی
اتنی تعظیم سے دشمن کو سلامی کیسی!
حاکمِ  وقت نے نشے میں گرالی پگڑی ….
ریت کرتی ہے طواف الجھے ہوئے بالوں کا
ھے فقیروں کی زمانے سے نرالی پگڑی……
زخم الفت کے زمانے کو دکھانے کے لیے ….
ہم عقیدت سے پہنتے رھے کالی پگڑی …..
ایسے سردار کی عزت پہ قبیلہ قربان……
جس نے غربت کے کھلے جسم پہ ڈالی پگڑی
ساٹھ سالوں کی سیاست کا خلاصہ یہ ھے…….
کھیل کا حصہ ہیں ماں بہن کی گالی …پگڑی ..
صائم افلاس کی تحقیر سے لڑنے کے لیے
میں نے لفظوں کو بہم کر کے بنالی پگڑی….

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں