عبدالباسط صائم
جب بھی بچوں نے شرارت سے اچھالی پگڑی
خاک پر گر کے بزرگوں نے سنبھالی پگڑی
گھر میں جھگڑا تھا زمینوں کی وراثت کے لیے
ماں نے روتے ہوئے بیٹوں سے چھپالی پگڑی
اتنی تعظیم سے دشمن کو سلامی کیسی!
حاکمِ وقت نے نشے میں گرالی پگڑی ….
ریت کرتی ہے طواف الجھے ہوئے بالوں کا
ھے فقیروں کی زمانے سے نرالی پگڑی……
زخم الفت کے زمانے کو دکھانے کے لیے ….
ہم عقیدت سے پہنتے رھے کالی پگڑی …..
ایسے سردار کی عزت پہ قبیلہ قربان……
جس نے غربت کے کھلے جسم پہ ڈالی پگڑی
ساٹھ سالوں کی سیاست کا خلاصہ یہ ھے…….
کھیل کا حصہ ہیں ماں بہن کی گالی …پگڑی ..
صائم افلاس کی تحقیر سے لڑنے کے لیے
میں نے لفظوں کو بہم کر کے بنالی پگڑی….