نیند ، گلشن ، قمر ، تمہارے ہیں
درد ، صحرا ، گہن ، ہمارے ہیں
سچ تو یہ ہے وبا سے پہلے بھی
ہم نے ایسے ہی دن گزارے ہیں
جال پھینکا تھا چاند کی خاطر
پھنس گئےاس میں کچھ ستارے ہیں
ہم نے تو کچھ مزاحمت کی تھی
آپ تو بن لڑے ہی ہارے ہیں
ہر طرف زندگی ہے خطرے میں
ہر طرف موت کے اشارے ہیں
یہ کڑا وقت ، یہ زبوں حالی
اک تباہی کے استعارے ہیں
زلف _ جاناں میں بھی سجے دیکھے
شاخ پر پھول کتنے پیارے ہیں
کتنے محدود ہیں فلک پہ نجوم
اور دھرتی پہ کتنے سارے ہیں
رنگ قوس _ قزح سے جو نہ ملیں
تیری چنری سے وہ اتارے ہیں
ایک دلہن کے بال ہوں جیسے
ہم نے کچھ یوں سخن سنوارے ہیں
اس لیے تیر ہم چلاتے نہیں
اس طرف لوگ کچھ ہمارے ہیں
کھول دیتا ہے روز اک ، عادل
وقت کے ہاتھ میں پٹارے ہیں