شوکت علی نازؔ
عمر بھر جو جیا مرا ہو کر
آج کیوں چل دیا جدا ہو کر
میری چاہت کی انتہا ہو کر
جا رہا ہے کوئی خفا ہو کر
چھوڑ جائے گا تو اندھیروں میں
پر جیوں گا تری ضیاء ہو کر
ایک رستہ ہماری منزل ایک
اجنبی بن نہ آشنا ہو کر
میں ہوں انسان وہ بھی انساں ہے
مل رہا ہے مگر خدا ہو کر
نہ جھکوں گا تمہارے آگے میں
دیکھ لے تو بھی دیوتا ہو کر
ڈوبا ہے کفر کی ذلالت میں
اور پھرتا ہے پارسا ہو کر
ناز جب تک کوئی نہ لوٹے گا
یوں ہی بیٹھیں گے راستہ ہو کر