دل جگر کے زخموں سے زیرِ پا کے چھالوں تک
رات کی مسافت ہے صبح کے اجالوں تک
پر سکون اک چہرہ کچھ ہی دن نظر آیا
پھر سکوں نہیں آیا میرے دل کو سالوں تک
اس کی بے نیازی کے کتنے مرحلے گزرے
وصل کے سوالوں سے ہجر کے حوالوں تک
اپنی انگلیاں مجھ کو اپنی جاں سے پیاری ہیں
ان کا لمس پہنچا ہے اس بدن کے خالوں تک
شاہد اب سہارا لو تم بھی جھوٹے رنگوں کا
زندگی کی بے رنگی آ گئی ہے بالوں تک
(شاہد جان)