نہیں دل سے ، زبانی ہورہی ہے
جو ہم پر گل فشانی ہو رہی ہے
وہاں اک مسکراہٹ ہے عقب میں
جہاں پر نوحہ خوانی ہو رہی ہے
یہیں سب کچھ بدلتا ہے رتوں میں
کہاں نقلِ مکانی ہو رہی ہے
جو بات انساں نہیں انساں سے کہتا
فرشتوں کی زبانی ہو رہی ہے
حجاب اترا ہے شبنم کا گلوں پر
حیا سے پانی پانی ہو رہی ہے