بے خبر، بے نشاں چلے گئے ہیںیہ مرے دن کہاں چلے گئے ہیںزندہ کر کے مکالمے کی فضاخوش گماں، بد گماں چلے گئے ہیںہر طرف رہ گیا ہے سناٹاسب جواں، نوجواں چلے گئے ہیںکس قدر پیار کرنے والے تھےلوگ جو ناگہاں چلے گئے ہیںکچھ ذہین و فطین طالبِ علمچھوڑ کر امتحاں چلے گئے ہیںبیچتے تھے دوائے دل وہ یہاںبند کر کے دُکاں چلے گئے ہیںسرخ اور سبز کچھ پرندے تھےاُڑ کے جانے کہاں، چلے گئے ہیںکوئی واپس وہاں سے آتا نہیںجانے والے جہاں چلے گئے ہیں`میری ہر بات بے اثر ہی رہی`سب سخن رائیگاں چلے گئے ہیں،،