سعید اشعرؔ
بھٹک رہا تھا سرِ دشت قافلہ دل کا
تلاش کرتا رہا میں بھی رہنما دل کا
مکین اتنا ہوا ہی نہیں، نہ ہونا ہے
ترے علاوہ کبھی کوئی، دوسرا، دل کا
اسے تو سجنے سنورنے کی کچھ طلب ہی نہی
وگرنہ سامنے رکھا ہے آئنہ دل کا
معاملہ جو محبت کا سامنے آیا
نظر میں کوئی نہیں آیا پھر بڑا دل کا
کوئی تو ہوگا جو چاہت کے بھید جانے گا
کسی کے کام تو آئے گا تجربہ دل کا
سبھی نے اپنی سی کوشش یہاں ہے کر دیکھی
کسی سے حل نہیں ہوتا یہ مسئلہ دل کا
ہزار بار کی کوشش بھی رنگ لائی نہیں
کسی طریقے سے بھرتا نہیں خلا دل کا
چلا ہے سینہ بہ سینہ یہاں وہاں تک یہ
کسی کتاب میں مت دیکھو فلسفہ دل کا
مرے چراغ نے مجھ سے وفا نہیں کی ہے
مرے وجود پہ چھایا ہے چاندنا دل کا
یہاں سے اس کے علاقے کو رہ نکلتی ہے
یہاں سے ہوتا ہے مشکل سنبھالنا دل کا
ابھی تلک یہ جو جاری ہے روشنی کا سفر
سمجھ نہ پایا کوئی، یہ ہے معجزہ دل کا
دماغ قابو سے باہر کبھی ہوا ہے مرا
سکون سے کبھی لیتا ہوں جائزہ دل کا
قدیم نسخے تو منسوخ ہونے والے ہیں
میں لکھ رہا ہوں نیا اب کے قاعدہ دل کا
تری زمین ترے آسمان چھوٹے ہیں
بہت کشادہ ہے ان سے بھی دائرہ دل کا
کسی بھی ملک میں رائج نہیں ہوا ہے کبھی
الگ تھلگ ہے سبھی سے ہی ضابطہ دل کا
ہر ایک اپنی بصیرت سے کام لیتا ہے
سمجھ سے بالا ہے اشعر معاملہ دل کا