سعید اشعرؔ
ہونٹوں پر کچھ لالی اچھی لگتی ہے
تیرے کان میں بالی اچھی لگتی ہے
صرف میں نہیں کہتا، سب یہ کہتے ہیں
تیرے منہ سے گالی اچھی لگتی ہے
وصل میں گزرے ہے یا ہجر میں گزرے ہے
تیری الفت سالی اچھی لگتی ہے
تیرا ساتھ اگر ہو چندا، سچ ہے یہ
شب ہو جتنی کالی، اچھی لگتی ہے
تیرے نام کی اس پر تتلی بیٹھی تھی
پھولوں سے لدی ڈالی اچھی لگتی ہے
مجھ کو تجھ سے کچھ بھی نہیں لینا دینا
تو بس مجھ کو خالی اچھی لگتی ہے
تیری آنکھوں میں جانے ایسا کیا ہے
اپنی آنکھ سوالی اچھی لگتی ہے
ایک اک بات میں اس سے کہنا چاہتا ہوں
پر اک بات خیالی اچھی لگتی ہے
نئی نئی رہ پر میں چلتا رہتا ہوں
اس کو دیکھی بھالی اچھی لگتی ہے