سعید اشعرؔ
چلنے لگی پھر تیز ہوا ، ایک کمینی
شانوں سے ترے سرکی ردا، ایک کمینی
خاموشی سے ڈوبا ہے اندھیرے میں اجالا
ہم دونوں کے آگے ہے انا، ایک کمینی
مٹی نے کسی کو بھی نہیں چھوڑا یہاں پر
اس جسم پہ رنگین قبا ، ایک کمینی
میں اپنے ہی اس ذات کے گنبد کا ہوں قیدی
لوٹ آتی ہے میری یہ صدا، ایک کمینی
بے خوف اچانک ہی مکیں ہونے لگی ہے
اندر مرے مجھ سے بھی سوا، ایک کمینی
جتنی بھی تکالیف ہیں سب اس کی عنایت
ہر ایک مرض کی ہے دوا، ایک کمینی
آئی تھی مرے پاس مری پیاس بجھانے
گاگر میں لئے صرف خلا، ایک کمینی
ہونے لگا ہے وقت مرے ہاتھ سے باہر
ہونے لگی ہے مجھ سے جدا، ایک کمینی
کچھ روز سے ناراض ہوں ہر ایک سے اشعرؔ
کچھ روز سے مجھ سے ہے خفا، ایک کمینی
سعید اشعرؔ