سعید اشعرؔ
آگ جلتی رہی کنارے پر
خواب دریا کے تیز دھارے پر
زندگی اس طرح گزاری ہے
سوکھی لکڑی ہو جیسے آرے پر
کس تمنا سے ایک دن ہم نے
نام تیرا لکھا سپارے پر
حادثے عام طور پر دیکھے
تیرے رستے کے اک اشارے پر
اس نے دیکھا جو آسماں کی طرف
تیر پھینکا ہے اک ستارے پر
اس کی آنکھوں میں ایک گلشن تھا
ایک پنچھی کے جب اتارے پر
ہم محبت میں جان دیتے ہیں
بات ہوتی رہے خسارے پر
اڑ کے جانا تھا اس کی محفل میں
روشنی سے لیے ادھارے پر
میں نے باندھا ہے خود کو جنگل میں
شیر آنے لگا ہے چارے ہر