غزل

غزل : سعید اشعر

سعید اشعر
گل عذاروں میں بے کلی کیسی
اک مسافر سے برہمی کیسی
تُو نے آنکھیں تو بیچ ڈالی ہیں
تیرگی کیسی، روشنی کیسی
چاند ہاتھوں میں آ گیا میرے
زرد پتّوں پہ چاندنی کیسی
اپنے اندر بھی میں نہیں موجود
تیرے در پر سو حاضری کیسی
تم خداؤں کی بات کرتے ہو
اس خدائی میں بندگی کیسی
بات بنتی نظر نہیں آتی
دل کے ہاتھوں یہ دل لگی کیسی
سب پرندے ہیں باغ میں موجود
پھر یہ پیڑوں پہ خامشی کیسی

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں