گل عذاروں میں بے کلی کیسی
اک مسافر سے برہمی کیسی
تُو نے آنکھیں تو بیچ ڈالی ہیں
تیرگی کیسی، روشنی کیسی
چاند ہاتھوں میں آ گیا میرے
زرد پتّوں پہ چاندنی کیسی
اپنے اندر بھی میں نہیں موجود
تیرے در پر سو حاضری کیسی
تم خداؤں کی بات کرتے ہو
اس خدائی میں بندگی کیسی
بات بنتی نظر نہیں آتی
دل کے ہاتھوں یہ دل لگی کیسی
سب پرندے ہیں باغ میں موجود
پھر یہ پیڑوں پہ خامشی کیسی