وہ لفظ مٹا دے گا زیادہ سے زیادہ
کاغذ بھی جلا دے گا زیادہ سے زیادہ
اظہار کی کوشش تو کروں سامنے اس کے
آواز دبا دے گا زیادہ سے زیادہ
فی الحال تو جاتا ہوں وہاں سامنے اس کے
محفل سے اٹھا دے گا زیادہ سے زیادہ
یہ عشق مرا اور بگاڑے گا بھلا کیا
بیمار بنا دے گا زیادہ سے زیادہ
یہ شہر مری رہ میں ہمیشہ کی طرح پھر
دیوار اٹھا دے گا زیادہ سے زیادہ
دشمن ہے اگر وہ تو مری دشمنی میں اب
تلوار اٹھا دے گا زیادہ سے زیادہ
آگے نہیں بڑھتا کوئی مشکل میں کسی کی
ہر شخص دعا دے گا زیادہ سے زیادہ
اس دشت میں مشکل ہے مجھے ڈھونڈنا اشعرؔ
وہ مجھ کو صدا دے گا زیادہ سے زیادہ