سبینہ سحر
نہیں خوفِ خدا جن کو عبادت کم سمجھتے ہیں
یہی کم عقل ہیں جو اس کی قدرت کم سمجھتے ہیں
تم ان کے سامنے بوسہ نہ لو محبوب کے در کا
ارے یہ لوگ احمق ہیں عقیدت کم سمجھتے ہیں
اشاروں میں انھیں میں نے بہت سمجھایا تھا لیکن
وہ اتنے بھولے بھالے ہیں محبت کم سمجھتے ہیں
معلم نے بہت ہی پیار سےڈانٹا تھا بچوں کو
مگر یہ بد گماں بچے ہیں شفقت کم سمجھتے ہیں
نصیحت مت کرو ان کو یہی وہ لوگ ہیں جو یاں
” کسی دیوار پر لکھی حکایت کم سمجھتے ہیں ”
بہن کا قتل کرتے ہیں جو لے کر نام غیرت کا
حقیقت میں یہ بےغیرت ہیں غیرت کم سمجھتے ہیں
وہ کہنے کو مرے ہیں مہرباں لیکن وہی میری
ہنسی میں غم چھپانے کی مہارت کم سمجھتے ہیں
قفط اجلے سویرے ہیں سّحر کے دوستوں میں تو
وہ چاہت سے بھرے ہیں اور نفرت کم سمجھتے ہیں