زہرا شاہ
یہ خود بہل جائے گی طبیعت کسی کی کوئی کمی نہیں ہے
مجھے دلاسوں کی کیا ضرورت میری مصیبت نئی نہیں ہے
سنا بہت تھا ہمارے قصے سبھی جریدوں میں چھپ چکے ہیں
میں پڑھ چکی ہوں یہ سارے کالم وہ اک خبر تو لگی نہیں ہے
یہ غم شراکت کا وہ ہی سمجھے جو اس اذیت میں مبتلا ہے
تم اتنے مغرور اس لئے ہو تمہاری چاھت بٹی نہیں ہے
الگ الگ ہیں ہماری راہیں ہماری مشکل جڑی ہوئی ہے
مجھے مسافت کے ہیں مسائل اسے بھی منزل ملی نہیں ہے
تمہارا لہجہ تمہاری باتوں کا ساتھ دینے سے ڈر رہا ہے
یہ سب دکھاوا ہی کر رہے ہو تمہیں محبت ہوئی نہیں ہے