مَیں تیری آگ کے اندر اُتر کے دیکھوں گا
جَلوں گا اور کرشمے ہُنر کے دیکھوں گا
تُجھے پتا چلے آبِ رواں کو کیا دُکھ ہے
مَیں ایک دن تُجھے چھاگل میں بھر کے دیکھوں گا
مِلاؤں گا نئے اجزا ترے مُرکّب میں
دوبارہ حُسن کی تشکیل کر کے دیکھوں گا
مرا مزاج کُہستانی ہے مگر کسی دن
ہَوا میں ریت کی صورت بکھر کے دیکھوں گا
ہمیشہ مَیں نے تُجھے سَرسَری ہی دیکھا ہے
حجاب اُٹھاؤں گا اور آنکھ بھر کے دیکھوں گا
پڑا نہیں رہوں گا مَیں یُونہی تری تہہ میں
اگر مَیں ڈوب گیا تو اُبھر کے دیکھوں گا
ہمیشہ چھوٹ ہی جاتا ہے ایک حصّۂ متن
سو آج شب تری تلخیص کر کے دیکھوں گا
اب اور سوگ مُجھے ختم ہی نہ کر دے رفیقؔ
لباس بدلوں گا اور بَن سنوَر کے دیکھوں گا