غزل

غزل : رفیق سندیلوی

مَیں تیری آگ کے اندر اُتر کے دیکھوں گا
جَلوں گا اور کرشمے ہُنر کے دیکھوں گا

تُجھے پتا چلے آبِ رواں کو کیا دُکھ ہے
مَیں ایک دن تُجھے چھاگل میں بھر کے دیکھوں گا

مِلاؤں گا نئے اجزا ترے مُرکّب میں
دوبارہ حُسن کی تشکیل کر کے دیکھوں گا

مرا مزاج کُہستانی ہے مگر کسی دن
ہَوا میں ریت کی صورت بکھر کے دیکھوں گا

ہمیشہ مَیں نے تُجھے سَرسَری ہی دیکھا ہے
حجاب اُٹھاؤں گا اور آنکھ بھر کے دیکھوں گا

پڑا نہیں رہوں گا مَیں یُونہی تری تہہ میں
اگر مَیں ڈوب گیا تو اُبھر کے دیکھوں گا

ہمیشہ چھوٹ ہی جاتا ہے ایک حصّۂ متن
سو آج شب تری تلخیص کر کے دیکھوں گا

اب اور سوگ مُجھے ختم ہی نہ کر دے رفیقؔ
لباس بدلوں گا اور بَن سنوَر کے دیکھوں گا

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں