پوچھ مت نارسادعاؤں کی
دیکھ تنویر کہکشاؤں کی
بے زمیں راستے ہوئے آباد
اْڑ گئی نیند دیوتاؤں کی
آسماں ہے کہ چادرِ تخیل
کہکشاں ہے کہ دْھول پاؤں کی
اک تماشائی اور دس کردار
ایک تمثیل دھوپ چھاؤں کی
ہے تحرّک میں ایک اک محور
سانس پھولی ہے سب دشاؤں کی
قرض باقی ہے ابتداؤں کا
جستجو بھی ہے انتہاؤں کی
آنکھوں آنکھوں میں گفتگو کیجے
کٹ چْکی ہے زباں صداؤں کی
ہم کہ سورج سے دل لگا بیٹھے
اور سورج نے کس پہ چھاؤں کی!