غزل

غزل : خالد علیم

ترے لیے کبھی وحشت گزیدہ ہم ہی نہ تھے
وہ دشت بھی تھا، گریباں دریدہ ہم ہی نہ تھے

لُٹے پٹے ہوئے اُن راستوں  سے  آتے  ہوئے
یہ سب زمین تھی، آفت رسیدہ ہم ہی نہ تھے

ہمارے ساتھ کِھلے، ہم پہ مسکرانے لگے
تھے تم بھی ایک گلِ نودمیدہ، ہم ہی نہ تھے

تم ایک خواب ہوئے اور بن گئے مہتاب
فلک کی آنکھ میں اشکِ چکیدہ ہم ہی نہ تھے

بجھی ہوئی تھیں فضائیں ، سُلگ رہا تھا دھواں
بہ رنگِ طائرِ رنگ پریدہ ہم ہی نہ تھے

جھکا  ہوا  تھا  مقدر  بھی  پھوٹنے  کے  لیے
تری نگاہ میں شاخِ خمیدہ ہم ہی نہ تھے

وہ دستِ لُطف بھی خالدؔ کھچا کھچا سا رہا
کچھ ایسے شہر میں دامن کشیدہ ہم ہی نہ تھے

younus khayyal

About Author

1 Comment

  1. younus khayyal

    فروری 28, 2021

    وااااااااااااہ ۔۔۔ کیا خوب صورت غزل ہے
    جھکا  ہوا  تھا  مقدر  بھی  پھوٹنے  کے  لیے
    تری نگاہ میں شاخِ خمیدہ ہم ہی نہ تھے

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں