حسن مسعود
یہ رات کون ہواتھا زمیں کی شال میں گُم
دیا طواف میں تھا روشنی کے جال میں گُم
کچھ اِس طرح سے رھا میں تِرے جمال میں گُم
کہ جیسے شام کا منظر کسی خیال میں گُم
مِرے جنوب کا رستہ تھا میری آنکھوں میں
مِری زمین کہ ہوتی رہی شمال میں گُم
میں ایک عمر یونہی چاکِ جاں پہ رکھا رہا
سفال مجھ میں کہیں گم تھا میں سفال میں گُم
مرا جواب بھی میری طرح کا سادہ تھا
جو اتنی دیر سے بیٹھا رھا سوال میں گُم
تمھاری یاد کی دیوار گِر پڑی مجھ پر
میں جا رہا تھا کِسی خواہشِ نڈھال میں گُم
مِرے گمان کی آنکھیں پکڑ رہی تھیں انہیں
جو ہو رہے تھے پرندے شجر کی چھال میں گُم