اس کے دل میں اگر غبار نہیں
مجھ کو ملنے میں کوئی عار نہیں
آپ شاید سمجھ نہیں پاۓ
رَو ہے اشکوں کی آبشار نہیں
اب کے دھڑکن میں حبس اُترا ہے
اب تو پل کا بھی اعتبار نہیں
ڈر ہے پتھر کا ہو نہ جاٶں میں
لوگ سُنتے مری پکار نہیں
ہم مروت میں جان دیتے ہیں
گو مروت ترا شعار نہیں
سر تمھارے ہو جیت کا سہرا
ہار جانے میں میری ہار نہیں
تیرے چہرے پہ کیوں پسینہ ہے
تیرا دامن تو داغ دار نہیں
بات پوری کرے ٗ کرے نہ کرے
تیرے دانشؔ کا اعتبار نہیں