خود کو تری نظروں میں گرانا تو نہیں ہے
رکھنا ہے تجھے یاد بھلانا تو نہیں ہے
کھینچا ہے محبت سے ترے شہر کا نقشہ
حالانکہ یہ چاہت کا زمانہ تو نہیں ہے
پلکوں پہ بٹھایا ہے جسے پیار دیا ہے
اُس نے مجھے پہلو میں بٹھانا تو نہیں ہے
کانٹوں نے بنانا ہے سفر اور بھی مشکل
کانٹوں نے مرا ساتھ نبھانا تو نہیں ہے
آیا نہیں ملنے کو وہ ناساز طبیعت
اب دیکھنا یہ ہے کہ بہانا تو نہیں ہے
جا کر اُسے روکو کہ نہ آۓ مری جانب
آنے کا ارادہ ہے روانہ تو نہیں ہے
رونق ہیں ترے گھرکی یہ معصوم فرشتے
دینا ہے انھیں پیار رُلانا تو نہیں ہے
ممکن ہے کسی روز اسے چھوڑ دوں دانشؔ
دنیا میں پڑاٶ ہے ٹھکانا تو نہیں ہے
جاوید دانشؔ
یوسف خالد
دسمبر 2, 2020آیا نہیں ملنے کو وہ ناساز طبیعت
اب دیکھنا یہ ہے کہ بہانا تو نہیں ہے
بہت خوب
شبیر احمد قادری ، فیصل آباد ۔
دسمبر 2, 2020بہت عمدہ اور شاندار کلام ۔