ہمارے دَرمیاں گَر بات تَفصیلی نہیں ہو گی
رَویوں میں کِسی صُورت بھی تبدیلی نہیں ہو گی
بِچھڑ کے تُجھ سے مَر جاؤں گا مَیں، کل بھی کہا جس نے
وُہ بچھڑے گا تو اُس کی آنکھ بھی گِیلی نہیں ہو گی
یہ سارے وَسوسے یہ مُشکلیں پہلے قَدم تک ہیں
چلو گے تو کوئی بھی راہ پتھریلی نہیں ہو گی
اَنا کے ناخنوں سے چھیڑ مَت چاہت کے ریشم کو
گرہ گر پڑ گئی تو عمر بھر ڈھیلی نہیں ہو گی
یہ سب ہی جانتے ہیں اَمن کے داعی ہیں ہم آغا
ہماری سوچ ہابیلی ہے قابیلی نہیں ہو گی