غزل

غزل : جاوید آغا

ہمارے دَرمیاں گَر بات تَفصیلی نہیں ہو گی
رَویوں میں کِسی صُورت بھی تبدیلی نہیں ہو گی

بِچھڑ کے تُجھ سے مَر جاؤں گا مَیں، کل بھی کہا جس نے
وُہ بچھڑے گا تو اُس کی آنکھ بھی گِیلی نہیں ہو گی

یہ سارے وَسوسے یہ مُشکلیں پہلے قَدم تک ہیں
چلو گے تو کوئی بھی راہ پتھریلی نہیں ہو گی

اَنا کے ناخنوں سے چھیڑ مَت چاہت کے ریشم کو
گرہ گر پڑ گئی تو عمر بھر ڈھیلی نہیں ہو گی

یہ سب ہی جانتے ہیں اَمن کے داعی ہیں ہم آغا
ہماری سوچ ہابیلی ہے قابیلی نہیں ہو گی

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں