ثمینہ سید
آٓنکھوں کی ویرانی پر
حیراں ہوں حیرانی پر
آنکھ سے آنسو بہتے ہیں
زور نہیں کچھ پانی پر
پتھر بھی رو دیتے ہیں
میری درد کہانی پر
دردِ جدائی لکھا ہے
ہر شب کی پیشانی پر
پھول کنول کے کھلتے ہیں
ٹھہرے ٹھہرے پانی پر
جگنو اس نے ٹانک دیے
میرے آنچل دھانی پر
کیسا جادو کر ڈالا
تو نے اس دیوانی پر