ایک منظر نور کا تھا اس میں تھا میرا خدا
عالم ِعین الیقیں، جی بھر کےتھا دیکھا خدا
وہ مجھے جب دیکھتاہے میں سمجھ جاتا ہوں بات
بولتا میں بھی نہیں اور بات ہے سمجھا خدا
نور کے پیکر کا سوچا اور آنکھیں میچ لیں
میں نے جو سوچا اسی جیسا تھا اَن دیکھا خدا
رازدارِ عشق کے ہونٹوں پہ آئی داستاں
کون اس سے بے خبر ہے، باخبر بولا خدا
میں ترے احساس کی دنیا میں تنہا کیوں رہوں
تو اکیلا ہے مجھے نہ چھوڑ یوں تنہا ، خدا
اس نے جنت کی بشارت دی مجھے جب خواب میں
اب نکالوں گا نہیں ، کہتا رہا اچھا خدا
میرے بابا اور اماں کب اکیلے آئے تھے
دیکھنے دنیا کو ان کے ساتھ تھا آیا خدا
پھر بھی خود کو وہ سمجھتا ہے اکیلا کس لیے
ہر بشر کے ساتھ ہے یہ بات ہے کہتا خدا
جس میں نہ ہو ہجر کا موسم انیس احمد کبھی
عشق کا منظر بنا دے کوئی تو ایسا خدا
انیس احمد