کبھی مقتل کومیں سوچوں کبھی زنداں دیکھوں
جانے والے کے لئے خود کو پریشاں دیکھوں
زخم تو زخم ہے بڑھتا ہی چلا جائے گا
کاش ہاتھوں میں ترے آج نمکداں دیکھوں
پیچھے دیکھوں تو فقط تُو ہی نظر آتا ہے
اپنے آگے تو میں تنہائی کا میداں دیکھوں
مجھے معلوم ہے تُو رات بہت رویا ہے
تیری آنکھوں میں نشاں درد کے پنہاں دیکھوں
زرد یادوں کو ہوا لے کے چلے تیری گلی
اور انہیں تیرے درو بام پہ رقصاں دیکھوں
یوں تو مشکل ہے کسی اور کا ہونا اعظم
پھربھی خواہش ہے اسی کام کوآساں دیکھوں