غزل

غزل : اعظم شاہد

کبھی مقتل کومیں سوچوں کبھی زنداں دیکھوں
جانے والے کے لئے خود کو پریشاں دیکھوں

 

زخم تو زخم ہے بڑھتا ہی چلا جائے گا
کاش ہاتھوں میں ترے آج نمکداں دیکھوں

 

پیچھے دیکھوں تو فقط تُو ہی نظر آتا ہے
اپنے آگے تو میں تنہائی کا میداں دیکھوں

 

مجھے معلوم ہے تُو رات بہت رویا ہے
تیری آنکھوں میں نشاں درد کے پنہاں دیکھوں

 

زرد یادوں کو ہوا لے کے چلے تیری گلی
اور انہیں تیرے درو بام پہ رقصاں دیکھوں

 

یوں تو مشکل ہے کسی اور کا ہونا اعظم
پھربھی خواہش ہے اسی کام کوآساں دیکھوں

 

 

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں