حبیب جالب غزل

غزل:حبیب جالب

حبیب جالب
حبیب جالب
دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے
دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے
خامشی پر ہیں لوگ زیر عتاب
اور ہم نے تو بات بھی کی ہے
مطمئن  ہے  ضمیر  تو  اپنا
بات ساری ضمیر ہی کی ہے
اپنی تو  داستاں  ہے  بس اتنی
غم اٹھائے ہیں شاعری کی ہے
اب نظرمیں نہیں ہے ایک ہی پھول
فکر ہم  کو کلی  کلی کی  ہے
پا سکیں گے نہ عمربھر جس کو
جستجو آج  بھی  اسی کی ہے
جب مہ و مہر بجھ  گئے جالبؔ
ہم نے اشکوں سے روشنی کی ہے

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں