شاعر : خورشید ربانی
غم نہیں غم آفریں اندیشہ ہے
آئینے میں جاگزیں اندیشہ ہے
موجہِ گرداب تک تھے ایک ساتھ
اب کہیں ہوں میں کہیں اندیشہ ہے
گاہے گاہے دیکھتے رہیے اسے
دل میں جو خلوت نشیں اندیشہ ہے
اس کی آنکھیں دیکھیے اور سوچیے
غمزہ بھی کیا سُرمہ گیں اندیشہ ہے
دل میں اڑتی خاک سے روشن ہوا
غم کوئی وحشی نہیں، اندیشہ ہے
ایک اک دھڑکن سے لگتا ہے مجھے
سر بہ سر قلبِ حزیں اندیشہ ہے
زندگی بھر کے سفر پر یہ کھلا
زندگی اک خواب گیں اندیشہ ہے
حادثہ ہے شاخ پہ مہکا ہوا
باغ سارا بالیقیں اندیشہ ہے