رئیس امروہوی
رقصاں ہے منڈیر پر کبوتر
دیوار سی گر رہی ہے دل پر
ٹہنی پہ خموش اک پرندہ
ماضی کے الٹ رہا ہے دفتر
اڑتے ہیں ہوا کے سمت ذرے
یادوں کے چلے ہیں لاؤ لشکر
پیڑوں کے گھنے مہیب سائے
یہ کون ہے مجھ پہ حملہ آور
پتوں میں جھپک رہی ہیں آنکھیں
شاخوں میں چمک رہے ہیں خنجر
یہ کون قریب آ رہا ہے
خود میرے ہی نقشِ پا پہ چل کر
یہ کون سہما رہا ہے مجھے
بیٹھا ہوا ہے چپ مرے برابر
یہ کس کا تنفسِ پُر اسرار
یہ کس کا تبسم فسوں گر
اک کرب سا روح پر ہے طاری
اک کیف سا چھا رہا ہے دل پر