تبصرہ : یوسف خالد
دلاور علی آزر کا شعری مجموعہ "مآخذ ” اردو غزل میں ایک خوبصورت اضافہ ہے- 219 صفحات پر پھیلے ہوئے اس مجموعہ غزل پر اردو ادب کے نامور اہلِ قلم کی آراء درج ہیں جب کہ اس کا دیباچہ ڈاکٹر طارق ہاشمی کا لکھا ہوا ہے – یہ مجموعہ رومیل ہاؤس آف پبلیکیشنزراولپنڈی نے شائع کیا ہے –
دلاور علی آزر اردو شاعری میں غزل کی ایک انتہائی توانا آواز ہے – اس کے اشعار ایک ایسے تخلیق کار کا پتا دیتےہیں جس نے خارجی ماحول سے وابستہ رہتے ہوئے بھی بیشتر وقت اپنی ذات کے اندر آباد اس جزیرے میں گزارا ہے جہاں امکانات ابھی جھٹپٹے کے عالم میں ہیں – روشنی اور تاریکی باہم بغلگیر ہے اور ایک ایسا منظر نامہ موجود ہے جہاں تخلیق کے لیے ان چھوا مواد وافر مقدار میں میسر ہے -اس جہان تک رسائی خود میں اترنے کی مسلسل ریاضت سے ہی ممکن ہے اور یہ کام کوئی سچا فنکار ہی کر سکتا ہے-دلاور نے حالتِ استغراق میں اس جہانِ تخلیق سے اپنی شاعری کے لیے رزق حاصل کیا ہے -اس نے اپنی رفتار کم کی ہے اور پسِ پردہ حقیقتوں کو جاننے کی کامیاب کوشش کی ہے – تمام روشنی سورج سے مستعار نہیں کہیں کہیں تو ہمارے چراغ جلتے ہیں۔ روشنی زندگی کا استعارہ ہے -تخلیق کار کے اعماق میں یہ روشنی ہمہ وقت موجود رہتی ہے-تا ہم اس روشنی کو تقسیم کرنے کا ہنر قلم کار کی فنی ریاضت سے اعتبار حاصل کرتا ہے -دلاور نے فنی پختگی سے شعر کے تار و پود میں یہ روشنی اس طور بھر دی ہے کہ اس کی شاعری مینارہء نور بن گئی ہے – یہ غزلیں جدید اردو شاعری میں نئے امکانات کا در کھول رہی ہیں اور ہمیں نئے ذائقوں سے متعارف کروا رہی ہیں –
میں دلاور کی خوبصورت شاعری کو اردو ادب میں ایک گراں قدر اضافہ سمجھتا ہوں -اور انہیں اس کتاب کی اشاعت پر مبارک پیش کرتا ہوں۔