شہزاد عادل سے تعلق اُس وقت کا ہے جب میں نے حلقہء تخلیق ادب ٹیکسلا کے ہفتہ وار ادبی اجلاسوں میں شامل ہونا شروع کیا ۔
یہ کم و بیش 1995 یا 96 کی بات ہو گی ۔ اُن کی حلقہء تخلیق ادب سے وابستگی اتنی گہری ہے کہ میرے لیے یہ تصور کرنا مشکل ہوتا ہے کہ حلقہء تخلیق ادب شہزاد عادل سے ہٹ کر کوئی الگ وجود ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ آج بھی شہزاد عادل کا نام سنتے ہی جو پہلا تصور ذہن میں آتا ہے وہ حلقہء تخلیق ادب ٹیکسلا کا ہے یہ الگ بات ہے کہ اُنھیں حلقہ چھوڑے ہوئے بھی کئی برس ہو گئے ہیں ۔
ادبی دنیا میں قدم رکھتے ہی جس حلقے نے میری بنیادی ادبی تربیت میں حصّہ ڈالا اور ادبی ذوق کی آبیاری کی وہ حلقہء تخلیق ادب ہی تھا ۔ یہی وجہ سے ہے کہ میں واہ کینٹ سے طویل فاصلہ طے کر کے اجلاس میں شرکت کے لیے ایچ ایم سی ٹیکسلا آیا کرتا تھا ۔
واہ کینٹ میں ادبی تنظیم صریرِ خامہ بھی موجود تھی لیکن مجھے حلقہء تخلیق ادب کی محبت اور حوصلہ افزائی یہاں کھینچ لاتی تھی ۔
اور اس بات کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں کہ میرے لیے شہزاد عادل کا دوسرا نام حلقہء تخلیق ادب رہا ہے ۔
مجھ جیسے کئی دوست ادبی دوست ہیں جنھوں نے اس حلقے سے بہت کچھ سیکھا ، یہاں کی تنقیدی نشستوں سے شعر کا شعور پایا اور بعد ازاں بہت اعلیٰ شعر کہے ۔
شہزاد عادل نے اس خطے میں شعری و ادبی روایت کے تسلسل کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے نام کو اس خطے کی ادبی تاریخ سے کسی صورت منہا نہیں کیا جا سکے گا ۔
اُ ن کا شعری مجموعہ ” زندگی زندگی” اپریل 2018 میں منظر عام پر آیا ہے ۔ شعر گوئی ذات سے کائنات تک کے سفر کا نام ہے ۔ شاعر اگر واقعتاََ باشعور اور حساس ہو تو جہاں وہ ذاتی واردات کو موضوع بناتا ہے وہیں سماجی دکھوں اور ان کے پسِ پردہ محرکات سے لا تعلق نہیں رہ سکتا ۔
شہزاد عادل کی شاعری اس کی واضح عکاس ہے ۔
اُن کی شاعری ایک ذمہ دار فرد کی شاعری ہے جو نہ صرف اپنے ارد گرد ہونے والی سماجی اور سیاسی تبدیلیوں کو محسوس کرتا ہے بلکہ اس پر ایک شاعرانہ ردِ عمل بھی دیتا ہے ۔
فریبِ رنگ سے ختمِ خزاں نہیں ممکن
چمن تمام نہ مہکے اگر بہار آئے
اے ہمسفرو راہ میں یوں تھک کے نہ ٹھہرو
ہم لوگ ابھی شہرِ اماں تک نہیں پہنچے
چلو عادل یہاں سے کوچ کر جائیں کسی جانب
ہمارے شہر میں بونوں کی سرداری کا موسم ہے
شہزاد عادل کی شاعری کے حوالے سے ایک عمومی تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ روایت کی شاعری ہے اور یہ تاثر کسی حد تک درست بھی
ہے ۔ وہ خود اس کتاب کے دیباچے میں اس کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔
نقاد جب یہ کہتا ہے کہ شہزاد عادل کی غزل میں روایت کا عنصر ضرورت سے زائد ہے تو میں کہتا ہوں آپ کی رائے سر آنکھوں پر ۔ ”
آج سے پندرہ سال پہلے ایک نقاد نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ شہزاد عادل پچھلے پندرہ سال سے ایک ہی جگہ کھڑا ہے ، یہ بات میرے لیے باعثِ اطمینان ہے کہ میں آج سے تیس برس پہلے بھی ایسا ہی شعر کہتا تھا ” ۔
لیکن کوئی شاعر عہدِ جدید میں رہتے ہوئے کس طرح مکمل طور پر روایتی ہو سکتا ہے ۔ سماجی اثرات ، مشاہدات اور واقعات اُسے تبدیل کرتے ہیں اور وہ کوشش کے باوجود پرانے عہد میں سانس نہیں لے سکتا ۔ اگر وہ لفظیات اور اسلوب کی سطح پر روایت سے جڑے رہنے کی کوشش بھی کرے تو موضوعات اُسے کھینچ کر عہدِ جدید میں لے آتے ہیں ۔
اکیسویں صدی بالعموم پوری دنیا میں اور بالخصوص پاکستان میں ایک بالکل نئے عہد کا آغاز تھا ۔ نائن الیون کے بعد پوری دنیا میں ابتری اور گراوٹ کا ایک نیا دور شروع ہوا ۔ پاکستان میں آج کی جوان ہونے والی نسل بم دھماکوں ، خودکُش حملوں اور مذہبی انتہا پسندی میں پروان چڑھی ہے ۔ معاشی گراوٹ نے سماجی ابتری اور اخلاقی دیوالیہ پن میں اپنا عکس دکھایا ہے ۔ سماج کی روایتی بندشوں میں زلزلے آئے ہیں کہ روایتی عقائد و نظریات لڑکھڑا نے لگے ہیں ۔ اور سخت سوالات کی زد میں ہیں ۔ اس تناظر میں شہزاد عادل کے اشعار دیکھیے اور فیصلہ کیجیے کہ کیا یہ روایتی مضامین ہیں ۔
وہ قہر ٹوٹا ہے یا الہٰی کہ لگ رہا ہے
زمیں ہماری ہے آسماں ہے نہ تُو ہمارا
اُتر کر آسماں سے دیکھ اک دن
زمیں پر کتنی مشکل زندگی ہے
اک طرف چند افراد ہیں زندگی کا اثاثہ لیے
اور کروڑوں ادھر زیست اور موت کے درمیاں لوگ ہیں
تمہارے شہر کی مسجد نہیں کہ بند ملے
یہ میکدہ ہے میاں ساری رات چلتا ہے
ہم نے صدیوں سے توڑا نہیں ہے روایات کا سلسلہ
زندگانی سے جوڑا ہوا ہے مزارات کا سلسلہ
شہزاد عادل فنّی سطح پر انتہائی مضبوط شاعر ہیں ۔ اُن کی مصرع سازی انتہائی چست اور حشو و زوائد سے پاک ہوتی ہے ۔ یہی وہ فنی مہارت ہے جو جدید شعرا کی اکثریت میں ناپید ہے ۔
شہزاد عادل کی خوبی یہ ہے کہ وہ شاعری کے حوالے سے کسی زعم کا شکار نہیں ہیں اور نہ ہی کسی مقابلے کی دوڑ میں شامل ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ اُنھوں نے "زندگی زندگی ” کی شاعری کو کسی ادبی گھن گرج اور ہاؤ ہو کے بغیر دوستانہ انداز میں دوستوں کے سامنے رکھ دیا ہے ۔
میں اُن کی اس کاوش کو تہہِ دل سے سراہتا ہوں اور یہ امید رکھتا ہوں کہ اپنی ادبی اور شعری خدمات کو جاری رکھیں گے اور مزید چراغ جلانے کا باعث بنیں گے ۔
محمد یعقوب آسیؔ
ستمبر 3, 2020شکریہ جناب مظہر حسین سید