افسانہ

یادوں کی تپش : رمشاء ساجد

دل اور دماغ پر صرف ایک ہی چیز بوجھ بنتی ہے جو مسلسل روح کو نوچتی ہے اور وہ چیز صرف یاد ہے۔۔۔صرف یاد۔
تمہیں کوئی نہیں سمجھا سکتا پاگل ہو گئی ہو وہ سب کچھ ماضی بن کر دفن ہو چکا ہے مگر تم ہر روز گڑے مردے نکالنے بیٹھ جاتی ہوآخر چاہتی کیا ہو تم۔۔؟
میں صرف مر جانا چاہتی ہوں لوگوں کے فریب اور دھوکوں سے دور جانا چاہتی ہوں۔۔بتائو بھیج سکتی ہو تم۔۔؟میں اس دنیا سے بے زار ہوں انسان ہی انسان نہیں رہا انسانیت بِک رہی ہے سب بے حس اور بے رحم ہیں بس اور میں نے تو خود آستین کے سانپ پالے ہیں ایک نے دوستی کی آڑ میں ڈسا تو دوسرے نے محبت کی۔
اف محورہ تمہارا تو اللہ ہی وارث ہے کتنی بے تکی باتیں کرتی ہو دنیا بہت خوب صورت ہے تم دو لوگوں کی خاطر ساری دنیا کو فراموش نہیں کر سکتی۔
دیکھو زوہا چلی جاو یہاں سے۔۔اگر مجھے سمجھ نہیں سکتی تو سمجھائو بھی مت۔۔۔
چلی جاتی ہوں میں یہاں صرف تمہیں سمجھانے آئی تھی کہ ماضی سے نکل آئو اور آنے والے وقت کا سوچو جسے تم ماضی کی وجہ سے نظر انداز کر رہی ہوآگے بڑھو چھوڑ دو انہیں جو تمہیں صرف تکلیف دیتے ہیں۔
زوہا تمہیں کیا لگتا ہے میں نے کوشش نہیں کی ہوگی سب بھلانے کی یا پھر یہ لگتا ہے کہ میںجان بوجھ کر اس اذیت میں مبتلا ہوںیار میں بھی ایک نارمل زندگی چاہتی ہوں خوش ہونا چاہتی ہوں مگر ایک انسان میری زندگی کی نہ ختم ہونے والی آرزو بن چکا ہے تو میں اب کیا کروں۔میرا دل کسی صورت یہ نہیں مانتا کہ وہ آج بھی ساتھ نہیں۔۔وہ ساتھ تھے ساتھ ہیں اور رہیں گے بھی۔۔۔نفرت کرتی ہوں میں ان سے بے حد نفرت اور کبھی معاف نہیں کر پائوں گی مجھے ذرہ برابر بھی یقین نہیں ان کی جھوٹی اور بے کار باتوں پر میں بس ان سے دور جانا چاہتی ہوں اور کچھ بھی نہیں چاہتی۔۔۔وہ آج بھی مجھ سے کہتا ہے کہ شادی تم ہی سے کروں گا میں صرف تمہارا ہوں آج بھی وہ مجھ سے محبت کے دعوے کرتا ہے۔۔۔مگر میرا دل اور دماغ کو اس نے خود اس بات کا یقین دلایا کہ محورہ تم جو بھی کر لو مر بھی جائو درد سے مگر میں وفا نہیں کروں گا۔۔میں بھی اب ہار مان کر بیٹھ گئی ہوں جائے اپنی اسی محبت کے پاس جو اس مجھ سے وفا کرنے سے روکتی ہے۔
ایسے سر پکڑکر بیٹھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا کوشش کرو سب بھلا دو ہمت مت ہارو کوشش اور محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔
میں ہر کوشش کر کے دیکھ چکی ہوں نہ میں اسے اپنے دل سے نکال پائی اور نہ ہی کسی اور کو اس کی زندگی سے۔۔وہ میری روح پر بوجھ بن چکے ہیں یہ بوجھ اترے تو میں سکھ کا سانس لوں مجھے بار بار وہ زہر اگلتی زبان یاد آجاتی ہے جس نے میرے ایک ایک خواب کو بے رحمی سے ڈس لیااس ناگن نے میری ساری خوشیوں کو زہر آلود کر کے میرے دل کے قبرستان میں دفنا دیا اب وہ زہر مجھے اندر ہی اندر کھائے جا رہا ہے وہ کالے سائے میرے ذہن پر حاوی ہیں۔۔۔زوہا کوئی اتنا بے رحم کیسے ہو سکتا ہے کہ میری تکلیف کی وجہ جانتے ہوئے بھی وہ کچھ نہ کر پایا میرا ساتھ اس نے تب تب چھوڑا جب جب مجھے اس کی بے حد ضرورت تھی اس کے سینے میں جو دل ہے وہ میرے لئے پتھر بن چکا ہے اتنے عرصے میں وہ مجھے تسلی کے دو بول بھی نہیں کہہ پایا۔۔میں نے اس کے لئے بہت کچھ چھوڑا گھر والوں کو بھی اپنا دشمن بنا لیاہر چیز اس کی خاطر خاک کر ڈالی مگر اس نے اسی خاک میں مجھے زندہ دفنا کر خوشیوں کا آشیانہ بنایا۔
تو تم اپنے گھر والوں کی بات کیوں نہیں مان لیتی کر لو شادی بسا لو اپنا گھر کیوں کسی کے دھوکوں کے سہارے بیٹھی ہوتم اپنے آپ کو خود دھوکا دے رہی ہو اس بربادی کی وجہ تم خود ہو۔
ہاں میں خود وجہ ہوں ان سب کی۔۔ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی اندھی بنی رہی کیوں کہ مجھے یقین تھا سب ٹھیک ہو جائے گا مگر ہر بار ایک ہی وجہ۔۔کیوں یار میں ہی کیوں۔۔مجھے ہی کیوں رونا پڑا بربادی صرف میرے حصے میں آئی۔۔میں نے تو کبھی کسی بات پر زبردستی نہیں کی وفا کے علاوہ اور مانگ ہی کیا لیا تھا جو اس نے مجھے تباہ کر کے ہی دم لیامیں نے بہت صبر کیا اتنا صبر کیا کہ وہ ہی میرے دل سے اتر گیا ۔۔۔اس کی یاد میرے دل اور دماغ میں اس قدر بسی ہے کہ موت کے علاوہ کوئی علاج نہیں۔۔۔میرا قصور ہی بتا دے تا کہ مجھے بھی سکون ملے کہ ہاں میں غلط ہوں پر وہ اس طرح سے خاموش ہے جیسے میں ہی سب مسئلوں کی ذمہ دار ہوں میرے ہوتے ہوئے بھی اس کی زندگی میں کسی اور کا آجانا اور جھوٹی باتیں کر کر کے ہمیں الگ کر دینا مجھ پر گھٹیا الزام لگانا اور پھر مجھے اس کے خلاف کرنا تا کہ میں خود ہی راستے سے ہٹ جائوں،،سب سے بہترین بات یہ کہ ہم نے آپس میں بات کرنے کے بجائے کسی تیسرے کو اپنا ہمدرد سمجھا یقین کیا اور سب برباد کر دیا نہ میں نے اس سے کچھ پوچھا نہ وہ خود پوچھ پایا۔۔بل کہ اس کی ہاں میں ہاں ملاتا چلا گیا اور بڑے آرام سے دو ہی دن میں میری جگہ اسی کو دے دی جس نے جال بچھاکر اسے مجھ سے چھین لیا میرے سارے حق اس کی جھولی میں ڈال کر دل وجان اس پر وار دی اور آخر میں مجھے یہ سننے کو ملا کہ میری ہی وجہ سے سب ہوا۔۔وجہ تو وہ خود بنا اتنا کمزور تھا کہ دو دن لگے اس کو مجھے بھلانے میں چند دن تو ہماری محبت کی موت کا سوگ منا لیتا مگر۔۔۔خیر میں یہ سب برداشت کر کے اس کرب سے اب نکل آئی ہوں وہ تو اتنا بھی نہ کر سکاکہ گھٹیا الزامات کے بارے میں مجھ سے بات تو کرتا میں نے آج تک کسی غیر کو اپنے قریب تک نہ پھٹکنے دیامگر وہ یقین کرتا رہا۔۔میں بہت بد نصیب ہوں کہ میں محبت بھی ٹھیک سے نہ کر سکی اور لوگوں کے فریب سمجھ ہی نہ پائی۔اب میں نے سوچ لیا ہے جیسا گھر والے کہیں گے میں مانتی چلی جائوں گی۔۔
شکر ہے تمہیں بھی عقل آئی۔
ُہاں پر شاید میں اسے کبھی نہ بھلا پاوں جس نے مجھ سے اتنی سچائی سے جھوٹا پیار کیا۔
ایسا کچھ نہیں ہے وقت ہر زخم بھر دیتا ہے دیکھ لینا گزرتے وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا انہی سوچوں نے تمہیں ذہنی مریض بنا رکھا ہے اسپتال جاتی رہتی ہو یا دوا لیتی رہتی ہو یہاں تک کے سونے کے لئے بھی دوا لیتی ہو یہ بھی کوئی جینا ہے زندہ لاش بن چکی ہو مجھے تو خالہ سے پتا چلا کہ تم بیمار ہو چند غلط لوگوں کی وجہ سے اپنے نصیب کو کیوں کوستی رہتی ہوتمہارا نصیب تو بہت اچھا ہے کیوں کہ اللہ نے لکھا ہے کسی انسان نے نہیں۔۔۔اب چپ چاپ رشتے کے لئے ہاں کر دوبس۔
ہاں یہی سوچا ہے اب۔
ٹھیک ہے میں خالہ سے کہہ کر جاوں گی کہ تمہاری ہاں ہے وہ بھی تمہاری وجہ سے بہت پریشان ہیں اب تم آرام کرو میں چلتی ہوں۔۔خداحافظ۔۔۔
اب کمرے میںمحورہ بلکل اکیلی کسی بے جان مورت کی مانند دیوار سے سر لگائے بیٹھی تھی،کالے سائے اس کی آنکھوں کے سامنے رقصاں تھے وہ اس کے اندرموجود یادوں کی تپش کو مسلسل بھڑکا رہے تھے ہر وہ پل جو ساتھ گزرا اس کے ذہن پر عذاب تھا۔
اسی کشمکش میں دن گزرتے گئے محورہ زندگی سے لڑتے لڑتے حالات کا سامنا کرنا سیکھ گئی اور وہ سمجھ گئی کہ لوگوں کے پیچھے بھاگنے سے صرف رسوائی اور دکھ ہی ملتا ہے انسان زلیل ہوکر رہ جاتا ہے لوگوں کو ان کی مرضی پر چھوڑ کر آگے بڑھنے میں ہی اصل عقل مندی ہے اور رہی بات فیصلوں کی تو جب حالات انسان کے بس سے باہر ہوجائیں اور لوگوں کی ڈسنے کی فطرت میںذرا فرق نہ آئے تو سب کچھ اللہ پر چھوڑ کر خاموش ہو جانا چاہیئے اور بے شک خدا بہترین کارساز ہے وہ برے لوگوں کے بُنے ہوئے جال ایک دن ضرور کاٹے گا قیامت ابھی باقی ہے ہر الزام،ہر دھوکا،ہر فریب اور ہرآنسو کا جواب ان دونوں کو دینا ہوگا مجھے یقین ہے میرا خدا مجھے آخرت میں ان کے ہر جال اورشر سے محفوظ رکھے گا۔
محورہ تمہیں نکاح کی بہت بہت مبارک باد۔۔۔
شکریہ خالہ جان۔۔زوہا کدھر ہے آپ کے ساتھ نہیں آئی؟
آئی ہے نا بھلا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ محورہ کی شادی ہو اور زوہا نہ آئے۔۔۔یہ لو آگئی تمہاری زوہا۔
زوہا یہاں میرے پاس بیٹھو کہیں مت جانا اب میرا دل بہت گھبرا رہا ہے ۔
ارے گھبرا کیوں رہی ہو۔۔؟
اگر یہ شخص بھی ویسا ہی ہوا ،مجھے کسی اور کی خاطر دھوکا دیتا رہا تو میں کیا کروں گی۔؟
اف اف محورہ آج کے دن بھی یہ سب بکواس کر رہی ہو یہ منحوس باتیں کم سے کم آج کے دن تو تمہیں بلکل زیب نہیں دیتی ،حد کرتی ہو وہ سب کچھ جو تم سوچ رہی ہو حالات اس کے بر عکس بھی تو ہو سکتے ہیں چلو اب تم تیار ہو جائو۔۔۔
ہاں بر عکس بھی ہو سکتے ہیں ۔۔۔ویسے بھی جو میں نے خواب سجائے جو خواہشیں دل میں جگائی سب اس کے بر عکس ہی تو ہوا ہے۔۔۔
تو بس چپ کر جائو عجیب لڑکی ہو تم سب کچھ تسلیم کر چکی ہو پھر بھی وہیں اٹکی ہو میں تو سمجھتی تھی تم اب ٹھیک ہو گئی ہواندھیروں کے گھنے جنگل سے نکل آئی ہو مگر تم ۔۔۔دوبارہ ایسی بات کبھی مت کرناکچھ ہی دیر میں تمہارا نکاح ہے ذہن کو ٹھیک رکھو۔
فنکشن کی رونق اور چمک دمک میں محورہ کا دل بے چین تھا اس کا ماضی اسے اپنی طرف کھینچ رہا تھا وہ چاہتی تھی کہ وہ چیخ چیخ کر روئے اور ساری دنیا کو بتادے کہ وہ کتنے درد میں ہے اسے تکلیف ہو رہی ہے مگر ـ۔۔۔’’مگر لوگ کیا کہیں گے‘‘۔۔۔کے ڈر سے بِنا آواز کے روتی رہی اس کے آنسو اندر ہی اندر گرتے رہے اور اس کے دل کو چیرتے رہے۔۔۔کیا فائدہ ایسے انسان کی یاد کا جس نے صرف آنسو دیے ہوں جب بھی یاد کیا تو آنکھیں چھِل گئی حلق سوکھ گیا آواز گم ہو گئی مگر ایک بھی لمحہ ایسا نہیں تھا جو لبوں پر مسکراہٹ لے آئے۔۔۔مجھے نہیں یاد کرنا ایسے وقت کو جو بس اذیت دے۔۔۔یہ کہہ کر محورہ نے آنسو صاف کیے اور نکاح کے لیے تیار ہوگئی۔
یہ کیا کر رہی ہو محورہ سب دیکھ رہے ہیں جلدی سے سائن کرو۔
کانپتے ہوئے ہاتھوں میں موجود چوڑیاں بار بار اس شخص کی یاد دلا رہی تھیں لگی مہندی سے بھی اس کی یادوں کی خوشبو آرہی تھی۔۔جیسے ہی آنکھ سے آنسو کاغذ پر گرا تو وہ بے وفائی یاد آگئی جہاں سے اس کے آنسوئوں کی شروعات ہوئی تھی اور آج ختم بھی ہوگی۔۔۔رونے سے بہتر ہے کہ خدا کا شکر ادا کیا جائے کہ کسی کی اصلیت سامنے آجا نا بھی کتنی بڑی نعمت ہے۔۔۔مشکلات سے صبر تک کا راستہ کانٹوں بھرا راستہ ہے صحرا جیسا پیاسا ،کالا سایہ ہے جو آسان نہیں ہے مگر خدا کا دامن تھام لو تو اس کے بعد زندگی بہت پر سکون ہے ایسی محبت کا کیا فائدہ جو اگلے کو صبر کرنا سکھا دے اور اسی صبر میں خود بھی دل سے اُتر جائے۔
کسی کی محبت میں حد سے زیادہ رونے سے وہ محبت آنسوئوں کے ذریعے بہہ جاتی ہے اور اسی انسان پر صبر آجاتا ہے جس کے بغیر ایک پل بھی موت جیسا محسوس ہوتا ہے۔
نکاح کی رسم ادا ہوچکی تھی محورہ ہمیشہ کے لیے تیمور کی ہو چکی تھی اب اس کے لیے کسی نا محرم کا خیال بھی گناہ تھااور وہ اس بات کا عہد کر چکی تھی کہ وہ اس رشتے کو دل سے نبھائے گی کسی کی بے وفائی کی سزا وہ اپنے شوہر کو ہرگز نہیں دے گی۔
شادی کے چند دن بعد ہی محورہ گھر والوں سے ملنے آئی تو زوہا بھی وہیں محورہ کے انتظار میں بیٹھی تھی۔۔
محورہ کیسی ہو تم۔۔تم خوش تو ہو نا۔۔؟
’’ہاں میں بہت خوش ہوں تیمور میرا بہت خیال رکھتے ہیں اور مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں۔۔دیکھو میرا نصیب کہاں تھا اور میں کسی اور کمزور شخص کی یادوں کی تپش میں جلتی رہی۔‘‘

younus khayyal

About Author

1 Comment

  1. Fiaz muhammad

    اگست 25, 2020

    عورت کی یہ ہی خوبی ہے کہ وہ دکھ جھیل کر نا چاہتے ہوئے بھی وقت نبھا لیتی ہے ۔۔۔اور محبت جب جہاں کہیں سے بھی مل جائے وہ خوش ہو جاےیبہے

Fiaz muhammad کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

افسانہ

بڑے میاں

  • جولائی 14, 2019
  افسانہ : سلمیٰ جیلانی انسانوں کی کہانیاں ہر وقت ہواؤں میں تیرتی پھرتی ہیں یہ ان کی روحوں کی
افسانہ

بھٹی

  • جولائی 20, 2019
  افسانہ نگار: محمدجاویدانور       محمدعلی ماشکی نے رس نکلے گنے کے خشک پھوگ کو لمبی چھڑی کی