افسانہ

ہاہویا : ع ع عالم

"موت کے علاؤہ ‘کینسر’ کا کوئی علاج نہیں ہے۔ ”
ڈاکٹر نے درجہ چہارم کی ملازمہ سے کہا جو اپنی کینسر میں مبتلا ساتھ میں کام کرنے والی مریضہ کی سفارش لے کر آئی تھی۔
"ڈاکٹر صاحبہ! خدارا آپ ہی کچھ کردیں۔ بے چاری بہت دکھیاری ہے۔ اس کی عمر رسیدہ بیٹیاں ابھی گھر میں بیٹھی ہیں۔ جن کا اس کے سوا کوئی پرسان حال بھی نہیں؛ اوپر سے یہ کم بخت ناسور اس کے گلے پڑ گیا۔ ذرا دیکھیں تو اس کی چھوٹی بیٹی کا ذردی زدہ مرجھایا ہوا چہرہ۔۔۔” آپا زینت نے بڑی لجاجت سے لیڈی ڈاکٹر صاحبہ سے منت کی کہ وہ ڈاکٹر صاحب کو رحم دلی کرنے پر مائل کریں۔
"آپا! ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ آپا جلد تن درست ہو جائے۔ باخدا! میں جانتی ہوں کہ یہ مرض کس قدر دردناک ہوتا ہے۔ مگر ہونی کو کون روک سکتا ہے۔ اللہ نہ کرے مگر۔۔۔۔۔۔” لیڈی ڈاکٹر نے اپنی تشویش ک اظہار کرتے ہوئے کہا۔
"آپا زینت! کیا آپا سیمہ کا کوئی بیٹا نہیں ہے جو کبھی ایک بیٹی آتی ہے اور کبھی دوسری بیٹی۔” کمرے میں بیٹھی گائناکالوسٹ لیڈی ڈاکٹر نے پوچھا۔
"ڈاکٹر صاحبہ! کیا بتاؤں۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ ایک بیٹا ہے۔ جس کے جسم پر ہڈیاں نمایاں نظر آتی ہیں گوشت نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہیں بغل میں موجود پرائیویٹ کالج میں پڑھاتا ہے اور اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ گھر کا سرکٹ چلانے کی کوشش کرتا ہے۔ شہناز بتا رہی تھی کہ ہر رات کو وہ آتا ہے اور بہن کو سونے کو بھیج کر خود اپنی ماں کے ساتھ لیٹ جاتا ہے اور روتا رہتا ہے۔” آپا زینت نے لیڈی ڈاکٹر کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا۔
"ہاں ڈاکٹر سحرش! پرسوں رات جب میں نائٹ شفٹ کو آئی تو میں نے رات کے غالبا دو بجے کے قریب دیکھا کہ ایک لڑکا اسپتال کے ٹھنڈے فرش پر بغیر جوتوں کے بیٹھا سجدہ ریز ہے۔ اس کی رقت آمیز سرگوشیوں میں بلا کا کرب تھا۔ جیسے ہی آپا سیما ذرا سا ہوش میں آکر کروٹ بدلتے بدلتے بدل نہ پاتی تو مجبور ہو کر صدا بلندی کر دیتی تو وہ جھٹ سے آپا کو اپنے کمزور پہلو میں لے کر کروٹ بدلنے کی سعی کرتا۔ایک دو بار تو میں نے بھی اس کی مدد کی۔۔۔وہ تو بس روتا ہی رہتا ہے۔” وہاں بیٹھی ہیڈ نرس نے اپنی سرگزشت کہہ سنائی۔
"ڈاکٹر صاحبہ! وہ اپنی ماں سے بہت پیار کرتا ہے۔ اس کا نام ‘تہذیب” ہے مگر پیار سے اسے اس کی ماں ‘سلطان’ کہتی تھی۔ اپنی ماں سےاس قدر لگاو دیکھ کر مجھے رشک آتا تھا کہ بیٹا ہو تو ایسا۔۔۔” آپا زینت کی آنکھوں میں محبت بھرے اشک اتر آئے۔۔۔
"ڈاکٹر صاحبہ! کیا اس مرض سے بے چاری کو شفا مل بھی جائے گی یا نہیں؟” آپا زینت نے کرب سے پوچھا
"آپا! یہ کینسر ہے اور آپا سیما کا کینسر آخری درجے کا ہے جہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔۔۔” ڈاکٹر نے اپنی عینک میز پر رکھتے ہوئے بتایا۔
ایک لمحے کے لیے آپا سیما کے خاندان کو لے کر کمرے کی فضا میں خاموشی نے راج کیا۔
"آپا زینت! ویسے آپا سیما کا گھر والا کیا کرتا ہے؟ اسے کبھی دیکھا نہیں۔۔۔” ہیڈ نرس نے آپا زینت سے پوچھا
"باجی! وہ تو بس نہ ہی پوچھیں اگر وہ کچھ کرتا ہوتا تو سیما بےچاری یوں ہمارے ساتھ یہ کام کرتی جو ہم کر رہے ہیں۔ وہ بس گھر پڑا رہتا ہے۔ احساس ہوتا ہے اسے تو بھی اپنی بے بسی کا عذر پیش کر کے دعا پر ہی سب کچھ چھوڑ دیتا ہے۔” آپا زینت نے قدرے تلخ لہجے سے کہا۔
اگلی صبح آپا سیما کی طبیعت مزید ناساز ہو گئی جس کے باعث انھیں لاہور ریفر کر دیا گیا۔
آپا سیما چوں کہ ہوش میں تھی اور یہاں کے ڈاکٹرز اپنی ملازمہ ہونے کے باعث ایسی کوئی دوا کا استعمال احتیاط سے کرتے کہ جس سے وہ بے ہوشی میں چلی جاتی۔ آپا سیما کو جب معلوم ہوا کہ لاہور بھیجا جا رہا ہے تو اس نے انکار کر دیا مگر بیٹیوں اور بیٹے کی ضد کے باعث آپا کو لاہور لے جایا گیا۔ آپا سارے راستے کہتی رہی:
"اللہ! لے کر جانا ہے تو ویسے لے جا۔ میرے بچے اس قابل نہیں کہ در در کی ٹھوکریں کھا سکیں۔ اجنبی شہر میں کہاں کہاں ذلیل ہوں گے۔ نہ ان کا کوئی اپنا ہے نہ کوئی بے گانہ۔۔۔ویسے بھی غریب کا کون ہوتا ہے؟ اللہ رحم کر۔۔۔میری بیٹیوں پر۔۔۔اللہ رحم کر میرے سلطان پر۔۔۔۔”
تہذیب معروف بہ سلطان نے اپنے ہی بل پر بی اے کر لیا تھا اور اپنی سی کاوشوں سے ہی کالج میں ڈیٹا انٹری آپریٹر کے طور پر جاب کر رہا تھا۔ صبح آٹھ بجے جاتا اور شام کو چار بجے گھر لوٹتا اور پھر رات کو اپنی ماں (جسے وہ لائف لائن کہتا تھا) کے پاس آتا اور رات یہیں گزار دیتا۔ جب کبھی ماں کی نظر اس پر پڑتی تو وہ اندر ہی اندر دم گھٹ کے رہ جاتی اور سلطان سے کہتی:
"مجھے معاف کرنا میں تم لوگوں کے لیے کچھ نہ کر سکی۔”
سلطان اپنی نقاہت کے باوجود اپنی ماں کو سہارا دیتا کہ:
"ایک تو سلطان کہتی ہے اور اوپر سے شکوہ کرتی ہے کیسی ماں ہے۔ جو سلطان ہوتا ہے اس کی آزمائش بھی بڑی ہوتی ہے۔ دیکھنا اللہ تجھے شفا دے گا اور پھر میں تجھے دنیا بھر کی عیش کراؤں گا۔۔۔” سلطان ماں سے اور ماں سلطان کے سینے سے لپٹ جاتی ہے ماں کے رخساروں پر آنسو چھلک جاتے ہیں۔جنھیں پونچھتے ہوئے سلطان بھی دو چار آنسو ماں کو دکھائے بغیر بہا دیتا ہے۔
سلطان وظائف بھی پڑھنے لگا تھا ہر طرح کے وظائف کہ جس سے وہ خدائی فیصلے کو ٹال سکے۔ مگر ہونی کو کون ٹال سکتا تھا۔ موت کے آگےکب کسی کی چلی ہے۔ موت کو ماندگی کا وقفہ کہنے والے بھی موت کے خواہاں نہ تھے۔
لاہور میں جس اسپتال میں داخل ہوئے وہاں علاج نہ ہونے کے برابر تھا۔ ویسے بھی اس مرض کے مریض کو وہ لاوارث سمجھتے۔ غریب ہوتے بھی لاوارث ہیں۔ سلطان کی والدہ کی طبیعت ناساز ہونے کی بابت کالج والوں کو بھی پتا تھا اس حوالے سے وہ جہاں تک ہو سکتا تھا اس کے ساتھ تعاون کرتے مگر اب کے سلطان کی جگہ انھیں کسی اور کو رکھنا پڑا تاکہ کالج کا کام چلتا رہے۔ پرنسپل نے اتنا تعاون ضرور کیا کہ اس کی تنخواہ اگلے مہینے کی بھی ییشگی کے طور پر دے دی۔
اسپتال میں مریض کے پاس صرف ایک بندے کو بیٹھنے کی اجازت تھی خواہ دن ہو یا رات۔ دن بھر بہن بیٹھتی رات کو سلطان۔ یوں دونوں بہن بھائی اپنی اپنی زمہ واری نبھانے میں مصروف رہے۔
ماں کا مرض روز بہ روز بڑھتا جا رہا تھا۔ ساری ساری رات ماں کرب ناک آہیں بھرتے گزار دیتی۔ ڈاکٹرز آتے اور کینسر کی مریضہ سمجھ کر آگے بڑھ جاتے۔ ماں کا درد جب شدت اختیار کرتا تو آہیں کراہیں بن جاتیں۔ سلطان تھکا ہارا ڈاکٹر کے پاس جاتا تو وہ سختی سے کہتیں:
"انجیکشن دے دیا ہے اس سے زیادہ کیا کر سکتے ہیں؟”
سلطان انتہائی عجز و انکسار کے ساتھ ممنونیت کا منتظر ان سے التجا کرتا رہتا۔
"ڈاکٹر صاحبہ! درد کم نہیں ہو رہا۔”
نہ جانے کیا اور کیسے انھیں ترس آتا۔ نرس کو بھیج دیتیں جو ماں کی کراہوں کو بند کرنے کے لیے ہائی ڈوز کا انجیکشن دی جاتی۔ سلطان شکریہ ادا کرتا رہتا کہ شاید ماں کا درد کم ہو گیا۔ مگر اسے کیا پتا تھا ک ماں کی کراہوں سے ان کے آرام میں خلل پڑتا ہے جس کے لیے وہ ماں کو بے ہوشی کی ہائی ڈوز دے کر سلا دیتیں۔
سلطان نے اس سارے عرصے میں ماں کے آکسیجن سیلنڈر کو زیادہ اور کم کرنا سیکھ لیا۔ مانیٹر پر چلنے والی الیکڑانک لہروں کی وجہ سے چلنے والی نبض ریٹ، آکسیجن ریٹ اور دل کی دھڑکن کا اسے پتا لگنے لگا۔لہذا وہ مانیٹر پر اور اکسیجن سلینڈر پر نظریں جمائے رکھتا۔ جب کبھی ذرا تبدیلی دیکھتا وہ ڈاکٹرز سے دیکھے ہوئے عمل کو خود ہی دہرا کر معتدل کر دیتا۔ وہ ایسا اس لیے کرتا کیوں کہ ڈاکٹر اور نرسز اپنے آفس کو چھوڑ کر آنے کو کوفت سمجھتی تھی۔ ایک دو بار جب ایک اناڑی نرس نے نبض میں انجیکشن لگایا جس سے ماں کے منھ سے چیخ نکلی۔ سلطان کے غصے سے نرس کو مخاطب کیا جس پر نرس نے اسے وہ باتیں کیں کی ماں نیم بے ہوشی میں ہاتھ جوڑنے لگی۔
"خدا کے لیے ہمیں معاف کر دو۔ میرے بیٹے کو کچھ نہ کہو۔ ہم یہاں سے چلے جائیں گے۔”
ایک ہی بات کو ماں بار بار دہرائے چلی جاتی۔ سلطان دل پسیج کر رہ جاتا۔
یہاں آئے دو ہفتے گزر چکے تھے۔ بڑی بہن کو واپسی کے بلاوے آنے لگے۔ کیوں کہ وہ شادی شدہ تھی۔ سلطان نے بڑی بہن کو بضد جانے کا کہا۔ وہ رو رو کر نہ جانے کی ضد کرتے رہی اور کہتی:
"مجھے جنم دینے والی اس حال میں ہے اور میں واپس سسرال جاؤں بھاڑ میں جائے ایسا سسرال اور گھر۔۔۔جنھیں احساس نہیں کہ ماں کی حالت کیسی ہے۔”
مگر سلطان جانتا تھا کہ بیٹیوں کا اصل گھر ان کا سسرال ہی ہوتا ہے یہ جملہ ماں ہی کہا کرتی تھی۔ سلطان نے ڈھارس دی اور بہن کو لاری اڈے جا کر واپسی کو بٹھا آیا۔ واپسی جاتے ہوئے بہن نے اپنے شوہر کی سونے کی انگوٹھی، یہ سوچ کر دینے کی کوشش کی کہ اسے بیچ کر گزر اوقات کر لے۔ مگر سلطان نے انکار کر دیا۔
سلطان کے پاس پیسے ختم ہو چکے تھے کیوں کہ اسپتال میں ادویات تو مفت دی جا رہی تھیں مگر آئے روز نئے سے نیا ٹیسٹ کی مد میں ہزاروں روپے لگائے جا چکے تھے۔ سلطان کے پاس اب کھانے کو پیسے بھی نہ تھے۔ ماں کو پانی کی طلب ہوتی تو وہ فورا سے پانی اور تازہ جوس لا رکھتا۔ اس دوران اس نے اپنا موبائیل فون بیچ کر ماں کے کھانے کا بندوبست کیے رکھا۔
مسلسل کئی راتوں سے جگراتا ہونے کی وجہ سے نقاہت اس کے جسم پر حملہ آور ہو چکی تھی۔ مگر اسے اس کی پروا بھی نہ تھی۔
اگلی صبح جب رپورٹس آئیں تو سینئر ڈاکٹر نے سلطان کو بتایا:
"ان کے بچنے کے چانسز نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کیوں کہ ان کا کینسر ان کے پورے جگر کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ یہ آخری درجے کا کینسر ہے۔ لہذا۔۔۔۔”
اتنا کہہ کر ڈاکٹر خاموش ہو جاتا ہے۔
"مگر ڈاکٹر صاحب میں نے پتا کروایا ہے کہ اس حالت میں بھی بیس سے تیس فیصد چانسز ریکوری کے ہوتے ہیں۔”
سلطان نے موضوع کو بڑھایا۔
"ہاں میں جانتا ہوں مگر ایک تو وہ طریقہ علاج مہنگا ہے اور دوسرا یہ رسک ہے۔”
ڈاکٹر نے برملا کہا۔
"ڈاکٹر صاحب! رسک سے جان بچ جائے تو لینے میں کیا مضائقہ ہے؟”
سلطان نے عرض گزاری۔
"مگر برخوردار! اس میں بیس لاکھ روپے خرچ آئے گا اور دوسرا جان بھی جا سکتی ہے۔”
ڈاکٹر نے سلطان کو بتایا۔
سلطان ابھی کشمکش میں تھا کہ محبت کے ہاتھو مجبور اس نے "ہاں ” کی آواز دیتے ہوئے منظوری کی اجازت دے دی۔
"ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب! آپ کریں۔ اللہ خیر کرے گا۔”
اس نے آسمان کی جانب منھ کر کے آہ بھری۔
"اوکے تو پھر صبح پانچ لاکھ روپے جمع کروائیں صبح ہی ان کا بڑا آپریشن کرتے ہیں۔”
ڈاکٹر نے سلطان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
"جی ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب! ”
اتنا اس کے منھ سے نکلا بس اور وہ چل دیا۔
سلطان دن بھر کبھی اس اسپتال تو کبھی اس اسپتال چکر کاٹتا رہا کہ شاید کوئی مسیحا مل جائے جو ماں کا علاج سستے میں کر دے۔ اسے ماں کو بچانا بھی تھا مگر ساتھ ہی اس قدر پیسوں کا انتظام بھی کرنا تھا۔ غریب کے پاس سوائے دعا کے اور کیا سہارا ہوتا ہے۔سو وہ بھی دعائیں کرتا رہا۔ مگر غریبوں کی دعائیں کم ہی پوری ہوتی ہیں۔
رات کے ایک بج رہے تھے،ہر کوئی محو خواب تھا۔ سوائے سلطان کے اور ایک دو نرس اور ڈاکٹر کے۔ ڈاکٹر اپنے کمرے میں میل ڈاکٹروں کے ساتھ خوش گپیوں میں مگن۔ جب کہ نرسز اپنے موبائیل فون پر موویز دیکھنے میں مصروف۔۔ مریضوں کو انجیکشن لگانے کے لیے "آیا جی” ادھر ہے ناں۔
سلطان پر ایک دو بار اونگھ کا شدید حملہ ہوا جس سے وہ جس کرسی پر بیٹھا تھا اس سے نیچے گر گیا۔موبائیل۔فون میں مگن نرس نے دھڑام سے آواز سنی تو سلطان کے حالت نیند میں گرنے کے منظر پر بے ساختہ ہنسنے لگی۔ اس گرنے کی وجہ سے سلطان کے ہاتھ پر چوٹ بھی آ گئی۔ نرس کی بے ساختہ ہنسی کی طرف توجہ کرنے کے بجائے اس نے ماں کو دیکھا جو بالکل آرام سے سو رہی تھی۔ اتنے آرام سے کہ مرض کے باعث پیدا ہونے والی آہیں اور کراہیں بھی سو رہی تھیں۔ ماں کو اس قدر سکون میں دیکھ کر سلطان کو بہت خوشی ہوئی اسے جیسے اپنی دن بھر کی دعاؤں کی قبولیت مل گئی ہو۔ اس کی آنکھوں میں خدا کے تشکر کے آنسو ابھر آئے کہ اس نے اس کی دعاؤں اور التجاؤں کی لاج رکھی۔وہ اس خوشی کے عالم میں اپنی ماں کے قدموں کی جانب سے کرسی اٹھا کر سرہانے کی طرف لایا اور یہ کہہ کر بوسہ دینے لگا کہ:
"ہاہویا! (ماں کو یہی کہتا تھا) ویسے ماتھے پر بوسہ دینا ماؤں کا حق ہوتا ہے انھی کو یہاں بوسہ کرنا زیب دیتا ہے۔۔۔”
پھر وہ کرسی سرکا کر ماں کے بائیں ہاتھ کی جانب بیٹھ گیا اور باتیں کرنے لگا۔
"ہاہویا! مجھے معاف کرنا میں تیرے لیے کچھ کر نہیں پایا صبح ڈاکٹر نے کہا ہے کہ تیرا آپریشن کریں گے۔ آپریشن ہونے کے بعد تو بالکل اچھی ہو جائے گی۔ بالکل پہلے کی طرح۔ ہنستی مسکراتی میری پیاری ہاہویا۔مگر ہاہویا! ڈاکٹر نے پانچ لاکھ پہلے مانگا آج سارا دن اسی چکر میں بھاگتا رہا کہ کیا کروں کہاں سے لوں۔۔کالج کے پرنسپل سے بھی بات کی مگر اتنی بڑی رقم سن کر انھوں نے بھی معذرت کر لی۔ ہاں فکر نہ کرنا میں کچھ نہ کچھ کر دوں گا۔ خواہ اس کے لیے مجھے اپنی جان ہی کیوں نہ دینا پڑی۔۔۔بس تو اک بات تن درست ہو جا اور گھر چل کر پھر سے ہمارے ساتھ قبرستان کو بہارستان بنا جا۔۔۔”
اس نے فرط محبت میں ماں کا ہاتھ تھاما اور اچانک وہ گھبرا گیا۔ کیوں کہ اس کے ہاتھ کے عین نیچے ماں کی زندگی کی ڈور تھی جو تھم چکی تھی۔ سلطان گھبرا گیا اس نے ناک کے پاس ہو کر سانس محسوس کرنے کی کوشش کی مگر وہاں تو سانس نہ جانے کب سے بند ہو چکی تھی۔ سلطان بھاگا ہوا نرس کے پاس گیا۔
"سسٹر! سسٹر! وہ امی۔۔۔ میری زندگی ۔۔۔۔سانس۔۔”
ابھی اتنا ہی کہا ہو گا کہ سلطان وہیں بے ہوش ہو گیا۔
"ہاہویا! جلدی سے تیار ہو جا۔ہمیں وقت پر پہنچنا ہے اور دنیا کے سب سے مقدس شہر کی طرف روانہ ہونا ہے۔” سلطان بہت خوش دکھائی دے رہا تھا کیوں کہ وہ اپنی ماں کو "مدینے” لے کر جا رہا تھا۔ گھر میں سبھی بہت خوش تھے۔ رشتے دار ملنے ملانے بھی آئے تھے۔ ان میں وہ احباب بھی شامل تھے کہ جنھوں نے کبھی پوچھا تک نہیں تھا بس لائف اسٹائل لوگوں کو آپ سے وفا کرنے پر پابند کرتا ہے نہ کہ آپ کا کردار۔ باہر "لینڈ کروزر” میں ماں کو بٹھا کر سلطان ڈرائیونگ کرتے ہوئے گھر والوں کو الوداع کہتا ہے۔ ماں بہت خوش تھی سلطان بھی۔ اس مقدس سفر میں اس کی ہاہویا کے ساتھ ساتھ اس کا پہلا پیار یعنی شانزے بھی اس کے ساتھ تھی۔ مگر سلطان نے اپنی ماں کو اپنے ساتھ بٹھایا تھا۔ ماں کہتی رہی کہ نہیں ادھر اپنی بیوی کو بٹھا وہ کہتا:
"ہاہویا! تیرا نمبر پہلا ہے جب کہ شانزے کا نمبر آخری۔۔۔” ماں سلطان کو دیکھ کر بلائیں لینے لگتی ہے کہ خدا تجھے سدا آباد رکھے۔
موٹر وے پر گاڑی معتدل انداز سے جانب منزل رواں دواں تھی کہ ناگہاں گاڑی کا بایاں آگے والا ٹائیر نکل کر روڑ پر دور تک چلا گیا۔ سپیڈ میں ہونے کے سبب گاڑی کنڑول سے باہر ہو گئی۔ سلطان گاڑی کو قابو کرنے میں ناکام ہوا اور گاڑی سیمنٹ کی باؤنڈری کو توڑتے ہوئے کھائی میں جا گری۔ سلطان زور سے چلایا:
"ہاہویا، ہاہویا، ہاہویا!!!”
اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ وہ اٹھا اس نے شکر کا سانس لیا کہ وہ خواب تھا۔مگر اگلے ہی لمحے وہ یہ سوچ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا کہ حقیقت میں بچھڑنے والے خوابوں میں بھی بچھڑتے دکھائی دیتے ہیں۔
افسانہ نگار: ع ع عالم

younus khayyal

About Author

2 Comments

  1. Husnain Ali

    مئی 18, 2023

  2. Zainab

    مئی 18, 2023

    The character of sultan is just heart touching 😭😢 🤐😐

Zainab کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

افسانہ

بڑے میاں

  • جولائی 14, 2019
  افسانہ : سلمیٰ جیلانی انسانوں کی کہانیاں ہر وقت ہواؤں میں تیرتی پھرتی ہیں یہ ان کی روحوں کی
افسانہ

بھٹی

  • جولائی 20, 2019
  افسانہ نگار: محمدجاویدانور       محمدعلی ماشکی نے رس نکلے گنے کے خشک پھوگ کو لمبی چھڑی کی